ایسا اثاثہ یا جائیداد ہوتی ہے جس کی اسے فوری حاجت تو نہیں ہوتی لیکن مستقبل میں ضرورت پیش آنے کا امکان ہوتا ہے اس صورت میں بھی فروخت کی بجائے اجارہ کا معاملہ طے کرنا بہتر ہوتا ہے تاکہ اثاثہ اور جائیداد بھی ہاتھ سے نہ نکلے اور فائدہ بھی حاصل ہوتا رہے۔
اسی طرح دوسروں کی خدمات حاصل کرنا بھی انسانی معاشرہ کی بنیادی ضرورت ہے کیونکہ پروردگارعالم نے اس دنیا کا نظام اس طرح قائم کیا ہے کہ یہاں ہر شخص اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے سلسلے میں دوسروں کی طرف رجوع کا محتاج ہے۔اس کرہ ارضی پر شاید ہی کوئی انسان ایسا ہو جسے اپنی زندگی میں کسی پہلو سے دوسروں کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی ہو۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
﴿نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا ۗ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ﴾
’’ہم ہی نے دنیا کی زندگی میں ان کے درمیان ان کی معیشت تقسیم کردی ہے اور بعض کو بعض پر درجات میں بلند رکھا ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں۔اور تیرے رب کی رحمت اس سے بہتر ہے جو سمیٹ رہے ہیں‘‘[1]
علاوہ ازیں اس میں یہ حکمت بھی پنہاں ہے کہ دنیا میں بیشتر افراد کا روز گار اجارہ ہی سے وابستہ ہے، اس پر پابندی کی وجہ سے بے روز گاری میں انتہائی تشویش ناک حد تک اضافہ ہوجاتا۔یعنی ہماری معاشی سرگرمیوں میں اجارہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جس کے بغیر دنیا کا نظام نہیں چل سکتا، لہٰذا اس کی اجازت اللہ تعالیٰ کی خاص کرم نوازی ہے۔اگر اللہ تعالیٰ اس کو جائز قرارنہ دیتے تو ہمیں قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔
|