Maktaba Wahhabi

124 - 202
’’ کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو کسی شخص کے ساتھ اس طرح معاملہ طے کرتا ہے کہ وہ اسے ہر کپڑے کے بدلے جو وہ خریدے گا نصف درہم یا اس سے زائد یا اس سے کم دے گا تو انہوں نے فرمایا میں اسے پسند نہیں کرتا اور یہ صورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث جیسی ہے کہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ بیع میں دھوکا ہوجاتا ہے۔لیکن اگرہرسو درہم کے بدلے ایک طے شدہ یعنی فیصد کے حساب سے معاوضہ دے تو انہوں نے کہا یہ مجھے زیادہ پسند ہے۔‘‘[1] بادی النظر میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام احمد بن حنبل صرف فیصد فارمولے کے تحت کمیشن لینے کے قائل ہیں، متعین رقم کی صورت میں کمیشن لینا جائز نہیں سمجھتے لیکن امر واقع میں ایسا نہیں ہے۔متعین رقم کی صورت میں کمیشن تب ہی ناپسندیدہ ہے جب چیز کی صفات معلوم نہ ہوں یا اس کی قیمت کا اندازہ نہ ہو لیکن اگرصفات معلوم ہوں یا قیمت کا اندازہ ہوتو پھر امام موصوف کے نزدیک بھی یہ جائز ہے جیسا کہ معروف حنبلی فقیہ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ بروکر کی اجرت کے ضمن میں رقمطراز ہیں: ’’اگر کوئی اس طرح کام کرنے کا کہےکہ وقت کی قید نہ ہو اور ہر ہزار درہم کے بدلے کچھ معلوم معاوضہ متعین کرے تو یہ بھی جائز ہے اور اگر یہ کہے تو جب بھی کوئی کپڑا خریدے گا تو تجھے ایک درہم اجرت ملے گی۔اور کپڑوں کی صفات معلوم ہوں یا قیمت کااندزاہ ہو تو یہ جائز ہے اور اگر ایسا نہ ہو یعنی صفات معلوم نہ ہوں یا قیمت کا اندازہ نہ ہو تو امام احمد کلام سے یہ ظاہر ہے کہ یہ جائز نہیں کیونکہ قیمتیں مختلف ہونے سے کپڑے مختلف ہو جاتے ہیں اور کپڑے مختلف ہونے سے اجرت بھی مختلف ہو جاتی ہے۔‘‘[2]
Flag Counter