Maktaba Wahhabi

116 - 202
کہا جاتا ہے لیکن ان سب کا مدلول ایک ہی شخص ہے کہ خریدوفروخت میں بائع اور مشتری کے درمیان واسطہ بنے۔ عربی میں اس کےلیے متعدد الفاظ استعمال ہوتے ہیں جن میں سب سے زیادہ معروف لفظ سمسار ہے جو اصل میں فارسی زبان کا لفظ ہے جس کو عربی شکل دے دی گئی ہے چنانچہ لغت کی مشہور کتاب المعجم الوسیط میں ہے: " (السمسار):الوسيط بين البائع والمشتري لتسهيل الصفقة مسمار الارض العالم بها(جمع) سماسرة(فارسي معرب) " ’’سمسار وہ شخص ہے جو سودا آسان بنانے کے لیے بائع اور مشتری کے درمیان واسطہ ہو۔ماہر ارضیات کو مسمار الارض کہتے ہیں۔اس کی جمع سما سرہ آتی ہے۔یہ فارسی لفظ ہے جس کو عربی میں ڈھالا گیا ہے۔‘‘ علمائے حدیث وفقہ کے نزدیک بھی سمسار کی یہی تعریف ہے۔چنانچہ علامہ احمد عبدالرحمان البنا رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ کہ سمسار (کمیشن ایجنٹ) وہ ہے جو دوسرے کے لیے خریدوفروخت کرے اس طرح کہ معاوضہ لے کر بائع اور مشتری کے درمیان واسطہ کی حیثیت سے داخل ہوکر بیع مکمل کرائے۔‘‘[1] عہد رسالت میں کاروباری طبقہ کے لیے بھی سماسرہ یعنی بروکرز کا لفظ استعمال ہوتا تھا مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جگہ ان لوگوں کے لیے تاجر کی اصطلاح متعارف کرائی جیسا کہ سنن اربعہ، مسند امام احمد بن حنبل، مستدرک حاکم اور سنن کبری بیہقی میں مروی ہے: " عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ، قَالَ: كُنَّا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُسَمَّى السَّمَاسِرَةَ فَمَرَّ بِنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمَّانَا بِاسْمٍ هُوَ أَحْسَنُ مِنْهُ، فَقَالَ:
Flag Counter