لہذا گھر والوں اور شوہر کی وہی باتیں مانی جائیں گی جو شریعت کے مطابق ہیں۔ان کے کہنے سے کوئی غیر شرعی کام جائز اور حلال نہیں ہو سکتا۔چھوٹی بچیاں تو غیر مکلف ہیں،لیکن بالغ خواتین کو اپنے اعمال کا خود حساب دینا ہو گا۔
4۔بعض دیگر مجبوریاں
بسا اوقات خواتین کو ملازمت کے لیے باہر نکلنا پڑتا ہے۔اس صورت میں بہت سی شرعی باتوں پر پوری طرح عمل نہیں ہو پاتا۔اس نوعیت کی مجبوری میں کچھ رعایت ہونی چاہیے۔
اس بارے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن مجید نے عورت کو گھر میں ٹھہرے رہنے کا حکم ہے۔اس کا اصل مقام گھر ہے۔گھر سے باہر نکلنے کی کوئی وجہ ہونی چاہیے۔چھوٹی موٹی معمولی نوعیت کی چیزوں کی خریداری کے لیے بازاروں کے چکر لگانا درست نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ملازمت کرنے والی خواتین کو یہ دیکھنا ہے کہ ان کی ملازمت کس نوعیت کی ہے۔دین کی نشرواشاعت کے لیے، تعلیم وتعلم کے لیے، علاج معالجے کے لیے، اس نوعیت کا کوئی جائز مقصد ہو تو ملازمت کرنا حرام نہیں ہے بلکہ شرعی حدود کے پابندی کے ساتھ نیت اچھی ہونے کی صورت میں اس پر اجر ہے۔
اگر مقصد پیسہ کمانا اور معیار زندگی بلند کرنا ہے پھر ملازمت میں شرعی قوانین کا لحاظ بھی نہ رکھا جائے تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔کسی خاتون کا ٹریفک وارڈن بھرتی ہو کر چوک میں کھڑے ہو جانا سراسر حرام ہے۔ معیار زندگی کی بہتری تو ایسا دھوکہ ہے جس کا کوئی علاج نہیں،کیونکہ بہترین معیار زندگی کی تعریف کرنا ناممکن ہے۔کسی
|