Maktaba Wahhabi

36 - 74
۱۔ فاضلہ دولت(ترکہ)کو قرآن نے خود’’خیر‘‘کہا ہے لہٰذا فاضلہ دولت کے جواز میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔ ۲۔ مال و دولت اسی وقت تک خیر ہے جب کہ اسے جائز طریقوں سے حاصل کیا جائے اوراللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا کے مطابق خرچ کیا جائے جو یہ ہے کہ فاضلہ دو لت کوکھلے دل سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ اگر یہ صورت نہ ہو تومال و دولت فتنہ اور بلائے جان ثابت ہوتا ہے۔ دولت مند صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس’’خیر ‘‘ کو خیرکے مقام پر ہی رکھا۔ مال و دولت کی محبت نے ان کے دلوں میں گھر نہیں کیا لیکن بعد میں یہ صورت حال نہ رہی جیسا کہ ایک مشہور صحابی حضرت خباب بن ارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں فرمایا: «اِنَّ اصحابَنا الذین سَلَفُوْا وَمَضَوْا وَلَمْ تَنْقُصَهُمُ الدنیابشئی وانا اَصْبُنَا مالًا نجدله موضعاً اِلاالتُّراب ولولا ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نهانا ان ندعوا بالموت لدعوتُ به» (بخاری۔کتاب المرضیٰ۔ باب تمنی المریض الموت) ترجمہ:’’ہمارے ساتھی دنیا سے رخصت ہوگئے اور دنیا ان کا کچھ بگاڑ نہ سکی اور ہم نے دنیا سے مال ودولت پائی کہ ہمیں اسے مٹی میں صرف کرنے(یعنی مکان بنانے )کے سوا مصرف نظرنہیں آتا اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں موت کی دعا کرتا۔‘‘ اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مال ودولت کی فراوانی نہ تھی ۔یہ فراوانی یا افراط زر دور عثمانی میں پیدا ہوئی اور دوسرے یہ کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دولت کی قلت کے باوجود انفاق فی سبیل اللہ کا رجحان زیادہ تھا لیکن جب دولت زیادہ ہوگئی تو خود غرضی بھی بڑھ گئی اوراس دولت کا بیشتر حصہ اپنی ذاتی ضروریات پر ہی خرچ کرنے کا رجحان بڑھ گیا۔ ۳۔ فاضلہ دولت سے اگر زکوٰۃ ادا نہ کی جائے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والی ہے۔زکوٰۃ ادا کرنے پر فاضلہ دولت کا جواز ثابت ہو جاتا ہے مگر یہ خیراسی وقت ہوگی جب کہ اسے کھلے دل سے خرچ کیا جائے۔ ۴۔ فاضلہ دولت ساری کی ساری خرچ کر دینا بہترین عمل ہے اور یہی چیز اسوئہ حسنہ سے ثابت ہوتی ہے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی زکوٰۃ ادا کرنا ہی نہ پڑی۔ اکثر خلفاء اور اکثر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے
Flag Counter