Maktaba Wahhabi

14 - 74
کتاب وسنت اور تعاملِ امت سے پیش کرتے ہیں ۔لہٰذا ان دونوں کے دلائل کا موازنہ کرنا ضروری معلوم ہوتاہے ۔ فاضلہ دولت یا اکتناز کے حق میں دلائل ۱۔آیۂ اکتناز اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کااستفسار : درج ذیل آیات میں فاضلہ دولت رکھنے والوں کے لیے سخت وعید آئی ہے تاہم انہی آیات سے فریقین اپنے اپنے حق میں دلیل اخذ کرتے ہیں لہٰذا ان آیات کو اس بحث کے دوران ہر وقت مدنظر رکھنا چاہیے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔ ﴿ وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 34؀ۙ. يَّوْمَ يُحْمٰي عَلَيْهَا فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰي بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْ ۭهٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ 35؀ ﴾ (التوبة:۳۴:۳۵) ترجمہ:’’او رجو لوگ سونا چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجیے جس دن وہ خزانہ آتشِ دوزخ میں تپایا جائے گا ۔ پھر اس سے ان کی پیشانیوں ‘ پہلوؤں او رپشتوں کو داغا جائے گا (اورکہا جائے گا ) یہ ہے جسے تم اپنے لیے خزانہ بنارہے تھے سواب تم اس خزانے کا مزہ چکھو۔‘‘ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ اس بات سے بہت پریشان ہوئے کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ تو اپنی ضرورت سے زائد بچاکررکھتاہی ہے اور جو چیز بھی ضرورت سے زائد پاس موجود ہو وہی کنزہوتاہے جس پر ایسی سخت وعید نازل ہوئی ہے ۔ جب یہ چرچا ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ ’’میں اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتاہوں ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پیچھے پیچھے حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ بھی چلے گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے سوال پر فرمایاکہ: ’’اللہ تعالی نے زکوٰۃ اسی لیے مقرر فرمائی ہے کہ باقی مال پاک ہوجائے ۔(یعنی زکوٰۃ کے بعد وہ مال کنز کی تعریف میں نہیں آتا)‘‘ (تفسیر ابن کثیر زیرِ آیت محولہ بالا۔بحوالہ مسنداحمد) اسی مضمون سے ملتی جلتی ایک مختصر سی روایت صحیح بخاری میں اس طرح آئی ہے ۔ «عن خالد بن اسلم قال خرجنا مع عبد الله بن عمر فقال : هٰذَا قَبْلَ اَنْ تُنْزَلَ الزَّکوةَ فَلَمَّااُنْزِلَتْ جَعَلَهَااللّٰهُ طُهْرًا لِلْاَمْوَالِ»
Flag Counter