Maktaba Wahhabi

47 - 98
’’سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میت کو دفن کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو اور اس کے لئے ثابت قدمی کی دعا کرو اس وقت اس سے سوال ہو رہا ہے۔‘‘ یہ حکم مرد و خواتین دونوں کے لئے ہے۔ میت کو دعاؤں کی ضرورت ہے۔ رونے پیٹنے کا، آہ وزاری کرنے کا اسے تو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا البتہ یہ عمل کرنے والا شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بہت سی بدعات و خرافات کا مرتکب ہوتا ہے۔ ماتم کرنا، راستہ روک کر تعزیت کے لئے بیٹھ جانا: امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: امام شافعی، ابو اسحق اور تمام علماء تعزیت کے لئے بیٹھے رہنے کو مکروہ سمجھتے ہیں۔ گھر والوں کا بیٹھے رہنا کہ لوگ آ آ کر ان سے تعزیت کریں، مناسب نہیں ہے بلکہ وہ اپنے معاملات دیکھیں اس دوران اگر کوئی مل جائے تو وہ ان سے تعزیت کرلے۔(المجموع: 5؍61) اس میں حکمت یہ ہے کہ گھر والوں کے غم کو بار بار تازہ نہ کیا جائے اور انہیں بے جا تکلیف میں مشغول نہ رکھا جائے۔بلکہ جب ملیں یا بات ہو تو حوصلہ دیں اور صبر کی تلقین کریں۔ اسی طرح میت پر تیجا، ساتواں، دسواں، چالیسواں یا سالانہ برسی کی اسلام میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ سب جہالت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگر اس میں ذرا بھی خیر یا دین داری ہوتی تو صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ معاملات ضرور کرتے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا سکھایا نہیں اور صحابہ کرام نے عمل کیا نہیں تو ہمیں بھی اس کی ضرورت نہیں ہے۔ فوتگی پر کھانا صرف گھر والوں کے لئے ہونا چاہئے۔ تعزیت کے لئے آنے والوں یا
Flag Counter