Maktaba Wahhabi

34 - 74
اور ساری زندگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اورمشاہدہ کرتے رہے کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال و دولت آتاتوآپ سب کچھ ہی دے دِلا کر فارغ ہو جاتے تھے۔پھرایک دفعہ شام سے تھوڑا پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے کہ احد پہاڑ نظر آیاجسے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’اے ابو ذر !اگر اس پہاڑ کے برابر بھی سونا میرے پاس ہوتو مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ تین دن تک میرے پاس اس میں سے ایک اشرفی بھی رہ جائے اِلاّیہ کہ مجھ پرکسی کا قرض ہو۔‘‘ (بخاری۔کتاب الرقاق۔ باب…مثل احد ذھباً) چنانچہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ زہد و قناعت والاپہلو خاص طور پر اثر انداز ہوا تھا۔یہی وجہ تھی کہ ایک دفعہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (یعنی دور عثمانی کے آخر میں) فاضلہ دولت کے حرام ہونے کا فتویٰ دے دیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے کہ زکوٰۃچالیسواںحصہ نہیں بلکہ چالیس حصے ہی زکوٰۃ ہے۔ ہم پہلے تفسیر ابن کثیر کے حوالے سے لکھ آئے ہیں کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ آیہ اکتناز کے حکم کو عام سمجھتے تھے اوراحنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مال و دولت رکھنے والوں کو ڈانٹا بھی تھا اور وعید بھی سنائی تھی۔ دور عثمانی کے آخر میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ مہم تیز کر دی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام میں مقیم تھے جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فتویٰ دیا تواس فتویٰ نے لوگوں میں ہل چل پیدا کر دی اور بہت سے لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گرد جمع ہونے لگے ۔ رفتہ رفتہ یہ معاملہ گورنر شام حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچا۔ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے ہاں طلب کیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی آیت اکتناز کو بنیادبنا کراپنا فتویٰ دہرایاجس پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف اختیار کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’یہ آیت مسلمانوں کے حق میں نہیں کیونکہ وہ زکوٰۃادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد مال پاک ہو جاتا ہے لہٰذا اس آیت کا اطلاق مسلمانوں پر نہیں بلکہ اہل کتاب پر ہوتا ہے‘‘۔جس کے جواب میں ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے ’’کہ اس آیت کا اطلاق مسلمانوں پر بھی ویسے ہی ہے جیسے اہل کتاب پر، خواہ وہ زکوٰۃ ادا کر بھی دیں۔‘‘ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابو ذررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس دعویٰ کا امتحان کرنا چاہتے تھے کہ یہ درویش صفت صحابی جو بات کہتا ہے آیا خود بھی اس کا پابند ہے یا صرف ’’ہتھ نہ پہنچے تھوہ کوڑی‘‘والا معاملہ ہے؟ چنانچہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے قاصد کے ہاتھ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوایک ہزاردینار کی تھیلی بطور نذرانہ بھیجی۔ دوسرے دن اسی قاصد کو ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں بھیج کر پیغام دیا کہ’’ کل جو نذرانہ کی تھیلی میں نے قاصد کے ہاتھ بھیجی تھی وہ دینی تو کسی اور کو تھی لیکن وہ غلطی سے آپ کودے گیا ہے۔ لہٰذا وہ واپس کردیجئے‘‘
Flag Counter