موسیٰ رضی اللہ عنہ کوئی جواب دینے کی پوزیشن میں نہ تھے جب افاقہ ہوا تو فرمایا:
’’أنا برئ مما برئ منه رسول الله، فإن رسول اللّٰه بریٔ من الصالقة و الحالقة و الشاقة‘‘
(صحيح بخاری: 1296، مسلم 167، 104)
’’جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برأت کا اعلان فرمایا ہے میں بھی اس سے برأت کااظہار کرتا ہوں۔ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الصالقہ(مصیبت کے وقت اونچی آواز سے نوحہ کرنے والی) الحالقہ(مصیبت پر بال منڈوانے والی) اور الشاقة(مصیبت کے وقت اپنے کپڑے پھاڑنے والی) سے بری الذمہ ہیں۔‘‘
الصالقة کا ایک معنی چہرے کو پیٹنے والی بھی کیا گیا ہے۔
امام نووی نے دعویٰ الجاھلیةکا معنی نوحہ کرنے والی، میت پر اونچی آواز سے بین ڈالنے والی اور اس جیسے کام کرنے والی بیان کیا ہے(شرح مسلم للنووی: 12)
اُم عطیہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
’’أخذ علینا النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم عند البیعة أن لا ننوح ‘‘
(صحیح بخاری:3؍210: سنن نسائی: 4؍16)
’’بیعت کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے وعدہ لیا کہ ہم نوحہ نہیں کریں گی۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول روایت کرتے ہیں:
((المیت یعذب فی قبره بما نیح علیه))
(صحیح بخاری:1292، صحیح مسلم کتاب الجنائز، باب المیت یعذب ببکاء أهله علیه 927، 2؍639، النسائی :4؍17)
’’میت پر نوحہ کرنے کی وجہ سے قبر میں اسے عذاب دیا جاتا ہے۔‘‘
یہ اس وقت ہے جب میت کا اپنا طریقہ کار بھی یہی تھا اور وہ اس عمل کو پسند کرتا تھا۔ اگر وہ اس عمل کو ناپسند کرتے ہوئے روکتا رہا تو اس صورت میں اسے عذاب نہیں دیا جائے گا۔
|