سَبِيْلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِيْنَ﴾(الاعراف: 146)
’’ میں اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں۔کبھی اس پر ایمان نہیں لائیں گے۔اگر وہ سیدھا راستہ دیکھ لیں تو اسے اختیار نہیں کریں گے۔اور اگر ٹیڑھا راستہ نظر آئے تو اس پر چل پڑیں گے۔اس لیے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے بے پروائی کرتے رہے۔‘‘
﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ ﴾(لقمان :18)
’’اللہ تعالیٰ کسی خود پسند اور تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((من کان فی قلبه مثقال حبة من خردل من کبرأكبه اللّٰه فی النار علی وجهه))
(یہ حدیث مسند احمد اور بیہقی میں موجود ہے)
’’جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا اللہ تعالیٰ اسے منہ کے بل آگ میں پھینکیں گے۔‘‘
زیورات کی زکوۃ ادا نہ کرنا
اسلامی نقطہ نظر سے عورت مالی معاملات میں خود مختار ہے۔اسلام اس کے حق ملکیت اور حق تصرف کو قبول کرتا ہے۔وراثت میں ملنے والے مال، حق مہر، تجارت کے نفع، ملازمت کی صورت میں اس کی تنخواہ اور تحائف وغیرہ کے ذریعے حاصل ہونے والے مال کی وہ خود مالک اور ذمہ دار ہے۔اسی طرح اگر اس پر زکوۃ فرض ہوتی ہو تو وہ بھی اسے ہی ادا کرنی ہے۔مال کی ایک صورت زیورات کی ہے۔اس کی زکوۃ ادا
|