کے مترادف ہے جس کی سزا جنت سے محرومی ہے۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أیما امرأة سألت زوجها الطلاق من غیر ما بأس فحرام علیها رائحة الجنة ))
(صحیح الجامع: 2706 یہ حدیث ترمذی، ابوداؤد میں بھی موجود ہے)
’’جس عورت نے بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق مانگی تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔‘‘
علامہ مناوی فرماتے ہیں:
’’اس کا مطلب ہے شدت۔ ایسی شدت اور حالات جو انہیں علیحدگی پر مجبور کر دیں وہ سمجھیں کہ وہ حدود اللہ کو قائم نہ کر پائیں گے۔ حسن صحبت اور اچھے طریقے سے گزر بسر واجب ہے۔ اگر بغیر وجہ کے علیحدگی کا مطالبہ کر دیا تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام کر دی جائے گی یعنی اس سے روک لی جائے گی۔ جنت کی خوشبو سب سے پہلے محسن اور متقی لوگ پائیں گے۔‘‘
(فیض القدیر 3؍138)
شریعت نے طلاق اور خلع کا سبب واضح کر دیاہے۔
﴿فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ﴾(البقرہ: 229)
’’اگرتمہیں اس بات کا خوف ہوکہ وہ دونوں حدود اللہ کو قائم نہ کر پائیں گے‘‘
حدود اللہ کے قائم نہ رہنے کا ڈر ہو تو علیحدگی ہو سکتی ہے اس کے علاوہ کوئی اور علیحدگی کی وجہ نہیں ہے وگرنہ اس کی سزا جنت سے محرومی ہے تحفة الاحوذی میں ہے۔ اگر وہ جنت میں داخل ہو بھی جائے پھر بھی اس کی خوشبو سے محروم رہے گی۔(تحفة الاحوذی 4؍308)
|