Maktaba Wahhabi

30 - 74
کرنے نکلے۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا تو کہا کہ ’’ اب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسلمانوں کے کاموں پر توجہ دینا چاہیے۔‘‘آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔’’پھر بچوں کوکہاں سے کھلاؤں؟‘‘حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے کہ’’ چلو ابو عبیدہ بن ابی الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلتے ہیں(ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی اس وقت بیت المال کے خزانچی تھے)‘‘چنانچہ تینوں صحابہ نے مل کرخلیفۃ المسلمین کا وظیفہ مقررکیا وہ ایک متوسط درجہ کے فرد کے اخراجات کا تخمینہ لگا کر چار ہزار درہم سالانہ طے کیا گیا۔ خلیفہ بننے کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آمدنی تویہی وظیفہ تھا جبکہ انفاق فی سبیل اللہ کی عادت پہلے سے موجود تھی۔ جب کوئی حاجت مند آتا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس دینے کو کچھ نہ ہوتا تو بیت المال سے قرض لے کر حاجت مند کو دے دیتے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دو سالہ دور خلافت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس دینے کو کچھ نہ ہوتا تو بیت المال سے قرض لے کر حاجت مندکو دے دیتے۔چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دو سالہ دور خلافت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام اس طرح کا چھ ہزار درہم قرضہ ہوگیا تھا۔جب وفات کا وقت قریب آیا تو اپنے صاحبزادے کو بلا کر فرمایا کہ میرا فلاں باغ بیچ کر بیت المال کے چھ ہزار روپے ادا کئے جائیں(طبقات ابن سعدج ۳ ) اور مکان بیچ کر آٹھ ہزار درہم کی وہ رقم جو میں نے دو سال کے دوران بیت المال سے بطور وظیفہ لی ہے وہ بھی واپس کر دی جائے۔جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات سنی تو فرمایا کہ’’ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد[1] میں آنے والوں کو تھکا دیا۔‘‘ (کنز العمال ج ۲ ) ۲۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ: آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچپن میں اونٹ چرایا کرتے تھے۔ مالی حالت کچھ اچھی نہ تھی۔ اسلام لانے کے بعد بھی کافی عرصہ یہی کیفیت رہیں۔اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جاگیر بھی عطا فرمائی تھی۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی فتوحات نے مسلمانوں میں کسی حد تک آسودگی پیدا کر دی تھی یعنی گزر بسر آرام سے ہو جاتی تھی۔ یہی صورت حال آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی تھی۔ غزوئہ تبوک کے وقت حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مالی حالت نسبتاً بہتر تھی لہٰذا دل میں خیال آیا کہ آج ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑھ کر چندہ دوں گا۔ گھر گئے اور تمام مال اور اثاث البیت کا نصف لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھوڑا سا سامان لے کر آ پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا کچھ لائے تو عرض کیا’’ یا رسول اللہ !جوکچھ بھی گھر میںموجود تھا اس کا آدھا لے آیا ہوں آدھا گھر میں چھوڑ آیا ہوں۔ ‘‘پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا لائے؟انہوں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! گھر کا سارے کا سارا سامان اور مال لے آیاہوں۔ گھر میں صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام
Flag Counter