Maktaba Wahhabi

39 - 74
۱۔ ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰٰ عنہ کے پاس بیٹھے تھے ۔ انہوں نے دوکتان کے رنگ دار کپڑے پہنے ہوئے تھے۔اسی کتان کے کپڑے میں انہوں نے ناک صاف کی۔پھر خود ہی کہنے لگے ’’واہ واہ ابو ہریرہ!اب کتان کے کپڑے سے ناک صاف کرتا ہے حالانکہ ایک وقت تھا جب میں منبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرہ کے درمیان بیہوش پڑا رہتا تھا۔لوگ میری گردن پرپاؤں رکھ دیتے اور مجھے دیوا نہ سمجھتے۔حالانکہ میں دیوانہ نہ تھابلکہ بھوک کی وجہ سے میرا یہ حال ہو جاتا تھا‘‘۔ (بخاری کتاب الاعتصام۔باب حض علٰی انفاق اہل العلم…) ۲۔ محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک تہبند میں نماز پڑھی جس کواپنی گدی پر باندھ لیا تھاجبکہ ان کے کپڑے تپائی پر رکھے ہوئے تھے۔کسی نے ان سے کہا(تم کپڑے ہوتے ہوئے)صرف ایک تہبند میں نماز پڑھتے ہو؟‘‘حضرت جابر کہنے لگے: ’’ہاں! تاکہ تجھ سا احمق مجھے دیکھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم میں سے کس کے پاس دوکپڑے ہوتے تھے؟‘‘ (بخاری ۔کتاب الصلوٰۃ ۔باب عقدالازار علی القفا) ۳۔ حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خیرات کا حکم دیتے تھے تواس وقت ہماری یہ حالت تھی کہ کوئی ہم میں سے مزدوری کرکے ایک ُمدّ(اناج یا کھجور)لے آتااور آج تو ہم میں ایسے بھی ہیں جن کے پاس لاکھ درہم موجود ہیں۔اس سے ان کااشارہ اپنی ذات کی طرف تھا۔ (بخاری کتاب التفسیر باب قولہ الذین یلمزون المطوعین…) آسودگی کا دور مسلمانوں میں آسودگی کا آغاز فتح خیبر سے شروع ہواجو بتدریج بڑھتا رہاتاآنکہ دور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخر تک مسلم معاشرہ کی حالت میںکافی تبدیلی آگئی جس کی مندرجہ ذیل دو وجوہ تھیں۔ ۱۔ افراط زر: دور فاروقی میں بہت زیادہ فتوحات ہوئیں اور اطراف و اکناف سے جزیہ اور انفال کی رقوم کثیر مقدار میں مدینہ پہنچنے لگیں اور یہ مقدار اس قدر زیادہ تھی کہ مسلمانوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحرین کے گورنر تھے۔ وہ وہاں سے پانچ لاکھ درہم جزیہ کی رقم لیکر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر ہوئے وہ خود روایت کرتے ہیں کہ:’’ میں نے کہا امیر المؤمنین! یہ جزیہ کا مال حاضر ہے‘‘۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا ’’کتنا مال ہے؟‘‘میں نے کہا ’’پانچ لاکھ درہم ‘‘کہنے لگے’’جانتے ہوپانچ لاکھ کتنا ہوتا ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’سو ہزار‘سو ہزارپانچ بار‘‘مگرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ۔’’معلوم ہوتا ہے کہ تم عالم غنودگی میں ہو۔اب آرا م کرو کل صبح آنا۔‘‘ میں دوسرے دن گیا تو پھر
Flag Counter