Maktaba Wahhabi

38 - 74
۳۔ حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں کہ: ’’میری قوم والوں نے دیکھا تو مجھ سے زیادہ کسی کو قرآن یاد نہ تھا۔آخر انہوں نے مجھ ہی کو امام بنایا۔ اس وقت میری عمرچھ سات برس کی تھی۔اس وقت میرے تن پرصرف ایک چادر تھی ۔وہ بھی اتنی چھوٹی کہ جب میں سجدہ کرتا توسمٹ جاتی۔ہماری قوم کی ایک عورت لوگوں سے کہنے لگیں۔’’اپنے امام کے چوتڑ تو ڈھانکو‘‘۔ چنانچہ انہوں نے میرے لیے ایک قمیض بنوائی جس سے میں اتنا خوش ہوا کہ اتنا اورکسی چیز سے نہیں ہوا‘‘۔ (بخاری ۔کتاب المغازی۔باب مقام النبی بمکۃ ذمن الفتح) ۴۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ: ’’ہم چھ آدمی ایک لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ہم چھ آدمیوں کے لیے ایک ہی اونٹ تھاجس پر باری باری سوار ہوا کرتے۔آخر (چلتے چلتے ) ہمارے پاؤں پھٹ گئے اور میرے پاؤںتو پھٹ کر ناخن بھی گر پڑے۔آخر ہم نے اپنے پاؤں پر چیتھڑے لپیٹ لیے۔ اسی وجہ سے اس لڑائی کا نام ہی غزوہ ذات الرقاع (چیتھڑوں والی لڑائی)پڑ گیاتھا۔‘‘ (بخاری۔کتاب المغازی ۔باب غزوہ ذات الرقاع) ۵۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’میں نے اصحاب صفہ میں سے ستر(۷۰) آدمی ایسے دیکھے جن کے پاس چادر تک نہ تھی۔ یا تو فقط تہبند تھا یا فقط کمبل جس کو انہوں نے گردن سے باندھ لیا تھاجو بعض کو تونصف پنڈلیوں تک پہنچتا اور بعض کو ٹخنوں تک اور وہ اس کو ہاتھ سے سمیٹتے رہتے ا س ڈر سے کہ کہیں ان کا ستر نہ کھل جائے‘‘(بخاری۔کتاب الصلوٰۃ ۔باب نوم الرجال فی المسجد) ۶۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عاص سے فقراء المہاجرین میں سے کسی نے سوال کیا ۔حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا’’تیری بیوی ہے؟‘‘کہنے لگا۔’’ہاں ہے‘‘ پھر پوچھا’’رہنے کو گھر ہے ۔‘‘وہ بولا’’ ہاں ‘‘حضرت عبد اللہ کہنے لگے’’تو پھر تو اغنیاء میں سے ہے‘‘۔ وہ کہنے لگا’’ میرے پاس توایک خادم بھی ہے۔‘‘ یہ سن کر حضرت عبد اللہ کہنے لگے«فانت من الملوك»’’پھر تو توبادشاہوں سے ہے۔‘‘ (مسلم۔کتاب الزھد) ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ جنگ خیبر کے بعد مسلمانوں کی معیشت میں تبدیلی آگئی تھی اور وہ کسی حد تک آسودہ حال ہوگئے تھے۔بعد کے ادوار میں اس آسودگی میں اضافہ ہی ہوتا رہا تا ہم صحابہ کرام اس آسودگی میں بھی اپنے تنگی کے وقت کو بھولے نہیں بلکہ وہ اسے فخر سے بیان کرتے تھے۔ چنانچہ:
Flag Counter