طرح جانتی ہیں۔لہذا وہ نیکی کے کام پر گھر والوں کو قائل کریں۔
تیسری بات یہ ہے کہ ہمیں والدین اور بڑوں کا احترام پوری طرح کرنا ہے۔ان کے تجربات اور رہنمائی کی روشنی میں چلنا ہے،لیکن دین کے معاملے میں بات اللہ اور اس کے رسول کی ہی ماننی ہے۔مشرکین مکہ کو جب توحید کی دعوت دی گئی تو انھوں نے اس دعوت کو نیا اور اجنبی قرار دیتے ہوئے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور باپ دادا کے طریقوں کو بطور دین کے اختیار کرنے کا اعلان کیا۔اللہ تعالیٰ نے ان کے اس رویے کو غلط قرار دیتے ہوئے فرمایا:
﴿وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَا اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَآءَنَا١ اَوَ لَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ شَيْا وَّ لَا يَهْتَدُوْنَ ﴾
(المائدۃ:104)
’’ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ قانون اور رسول کی طرف آؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے کیا یہ اپنے باپ دادا کے طریقے پر ہی چلیں گے۔خواہ وہ کچھ نہ جانتے ہوں اور صحیح راستہ کی انہیں خبر ہی نہ ہو۔؟‘‘
خاندان کے صرف وہی طور طریقے قابل قبول ہیں جو شریعت کے مطابق ہیں۔غیر شرعی طریقوں سے خود بھی بچنا ہے اور ان کے ساتھ نیکی کرتے ہوئے حکمت ودانائی کے ساتھ انہیں بھی بچانے کی کوشش کرنا ہے۔یہاں پر یہ قاعدہ سامنے رکھنا چاہیے :
لا طاعة المخلوق في معصية الخالق
’’خالق(اللہ) کی نافرمانی کرتے ہوے مخلوق کی اطاعت نہیں ہو سکتی۔‘‘
|