Maktaba Wahhabi

222 - 238
’’دائیں طرف سے شروع کرو اور وضو کے اعضاء سے ابتداء کرو۔‘‘ پس شروع میں اسے نماز کے وضوء جیسا وضوء کروایا جائے۔علماء کہتے ہیں : سوائے کلی کروانے او رناک میں پانی ڈالنے کے۔کیونکہ اگر اس کے ناک یا منہ میں پانی ڈالا گیا تو وہ اس کے پیٹ میں چلا جائے گا۔  پھر اس کے سر کے بالوں کو اور داڑھی کو پانی اور بیر کے پتو ں سے دھویا جائے۔ جیسا کہ صحیحین میں ہے؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے آدمی کے بارے میں کہ جو اپنے اونٹ سے گرا اور مر گیا فرمایا: ((اغْسِلُوہُ بِمَائٍ وَسِدْرٍ ))(البخاری 1265مسلم1206) ’’ اسے بیری کے پتوں کے پانی سے غسل دو۔‘‘ ٭ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’پھر اس کا دائیاں پہلو دھویا جائے پھر بائیاں پہلو۔ جیسا کہ سابقہ حدیث میں گزرا:’’دائیں طرف سے شروع کرو۔‘‘ پھر ایسے ہی دوسری اور تیسری بارغسل دیا جائے۔ اگر ضرورت پڑے تو پانچ یا سات باریا اس سے بھی زیادہ مرتبہ غسل دیا جاسکتا ہے۔ بس اس کا اختتام طاق عدد پر ہو۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:  ((اغْسِلْنَہَا وِتْرًا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا أَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذَلِکَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِکَ)) (البخاری 1265مسلم1206) ’’ اس کو طاق اعداد میں یعنی تین یا پانچ یا سات بار غسل دو؛ یا اس سے زائد بار؛ اگر تم اس کی ضرورت سمجھو۔‘‘ ’’ ہر بار میت کے پیٹ پر سے ہاتھ گزارا جائے؛ اگر اس سے کچھ نکلے تو اسے دھو دیا جائے جیساکہ پہلے گزر چکا ۔ اور پھر اس جگہ کو روئی یا کوئی ایسی چیز رکھ کر بند کردیا جائے۔‘‘اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کے بعد پیٹ سے کچھ نہ نکلے۔ اور اگر پیٹ سے مادہ نکلنا پھر بھی نہ بند ہو تو گاڑھی لیس دار مٹی یا کوئی ایسی چیز لگائی جائے۔ اس مٹی کی پکڑ سخت ہوتی ہے۔ ’’ یا پھر جدید میڈیکل کا کوئی نسخہ استعمال کیا جائے۔‘‘ کیونکہ اب ایسے معاملات آسان ہوگئے ہیں جو پہلے آسان نہیں تھے۔ پس ایسا کوئی پلستر ؍پٹی وغیرہ لگانے میں کوئی حرج نہیں جو اس مادہ کو باہر نکلنے سے روک سکے؛ اور وہ اس روئی یا مٹی کا قائم مقام بن جائے۔’’اور اسے دوبارہ وضوء کرایا جائے؛ اور اگر تین بار دھونے سے پاک نہیں ہوا تو پانچ یا سات بار دھویا جائے ‘‘ جیسے بھی اس کی ضرورت محسوس ہو ۔  ’’پھر اسے کپڑے سے خشک کر لیا جائے؛ اور اس کے جوڑوں میں خوشبو لگائی جائے۔ جیسے بغلوں وغیرہ میں ۔ خصوصاً وہ مقامات جہاں پر پسینہ یا بو زیادہ ہوتے ہیں ۔پس ان جگہوں پر خوشبو لگائیں ؛ اور سجدہ کرنے والے اعضاء جیسے پیشانی ؛ دونوں ہاتھوں اور ناک کو بھی خوشبو لگائی جائے؛ اس میں اعضائے سجدہ کا شرف اوران کے مقام ومرتبہ کا بیان ہے۔ ’’ اگر سارے کو خوشبو لگائی جائے تو بہت اچھا ہے‘‘ یعنی جب خوشبو میسر ہو؛ اور کوئی (میت کے )تمام جسم کوخوشبو لگانا چاہے تو اچھی بات ہے۔ بعض صحابہ کرام جیسے حضرت انس اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایسا کرنا منقول ہے۔
Flag Counter