Maktaba Wahhabi

159 - 238
کے درمیان جلسہ سے مشابہت دی گئی ہے۔ اس جلسہ میں رکعات کے مابین فصل کے ساتھ ساتھ نمازی کے لیے راحت بھی ہوتی ہے تاکہ وہ اگلی دو رکعت پوری نشاط اورقوت اور تندھی کے ساتھ ادا کرسکے۔ بخلاف اس کے کہ اگر وہ پے درپے رکعات پڑھتا جائے تو وہ نشاط نہ ہو۔ اسی لیے افضل یہ ہے کہ نفلی نمازیں دو دو رکعت کرکے ادا کی جائیں ۔ اور اگر وہ چار رکعت پڑھنا چاہے تو ان کے درمیان میں ضرور بیٹھے۔  التحیات کے ان کلمات کو نماز کے آخر میں رکھا گیا ہے؛ یہ ایسے ہی ہے جیسے خطبہ حاجت اس کے بعد ہو۔ اس لیے کہ جب نمازی نماز سے فارغ ہوتا ہے تو ڈرتے ہوئے اور رغبت رکھتے ہوئے بیٹھتا ہے اور اپنے رب سے وہ عطائیں طلب کرتاہے جن کے بغیر اسے کوئی چارہ کار نہیں ۔ پس مشروع یہ ہے کہ وہ ان عطاؤوں کے مانگنے سے پہلے التحیات کو ان الفاظ میں مقدمہ کے طور پر پیش کرے۔ اور پھر اس ہستی پر درود و سلام پڑھے جن کی بدولت اسے یہ نعمت اور سعادت حاصل ہوئی ہے۔ گویا کہ نمازی اللہ تعالیٰ کی بندگی اور پھر اس کی ثناء اور اس کے لیے وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اقرار اور آپ پر درود و سلام کو وسیلہ کے طور پر پیش کررہا ہے۔ پھر اس سے کہا گیا ہے کہ اب جو دعا پسند ہو مانگ لو۔جو کچھ پہلے ہوا وہ آپ پر حق تھا ؛ اوراب جو کچھ مانگو گے وہ تمہارا حق ہوگا۔ آپ پر صلاة وسلام کے ساتھ ساتھ بطور تکمیل آپ کی آل پربھی صلاةوسلام پڑھنا مشروع ٹھہرایا گیا ہے؛ اس میں آپ کی آل کا احترام اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ آپ پر اور آپ کی آل پر ایسے ہی صلاةوسلام پڑھا جائے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل پر درود و سلام پڑھا جاتاہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد تمام انبیاء آپ کی آل میں سے ہیں ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ایسے ہی درود و سلام مطلوب ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بعد تمام انبیاء اور ان کی مؤمن آل کے لیے درود و سلام مطلوب تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑھے جانے والے درودوں میں سب سے زیادہ کامل اور افضل یہی درود یعنی درود ابراہیمی ہے۔ جب نمازی یہ درود پڑھ لے تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر قسم کے جامع شر اور برائی سے پناہ مانگے۔ بیشک اصل شر یا تو آخرت کا عذاب ہے یا پھر اس کے اسباب ۔ سوائے عذاب اور اس کے اسباب کے کوئی شر نہیں۔ عذاب کی دو اقسام ہیں :  1۔ برزخ کا عذاب 2۔ آخرت کا عذاب۔  اس کے اسباب فتنہ کی بھی دو اقسام ہیں : صغری اورکبری۔  کبری: ....یعنی بڑا فتنہ ؛دجال کا اور موت کا فتنہ ہے۔ اورصغری : یعنی چھوٹا فتنہ ؛ زندگی کا فتنہ ہے؛ جس کا تدارک توبہ سے ممکن ہے۔ بخلاف موت اور دجال کے فتنہ کے۔ بیشک ان فتنوں میں مبتلا انسان کاتدارک نہیں کیا جاسکتا۔پھر اس کے لیے دعا کرنا مشروع ہے؛ جیسے وہ چاہے اپنی دنیا اور آخرت کی مصلحتوں کے لحاظ سے دعا کا انتخاب کرے۔ پس اس مقام پر سلام سے قبل دعا ؛سلام کے بعد دعا سے زیادہ افضل اور نفع بخش ہے۔‘‘(نماز اور اس کے تارک کے احکام 151) ٭٭٭
Flag Counter