Maktaba Wahhabi

123 - 238
نیکی ؛ ایک برائی۔ اس کی نیکی سچائی کا حسن ہے۔اور اس کی برائی شرک ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ توحید کا حسن بہت بڑی خیر و برکت ہے جو کوئی سچائی کے حسن سے بہت بڑا اور بڑھ کر ہے۔ اور شرک کی برائی جھوٹ کی برائی کی نسبت بہت بڑی گند اور خرابی ہے۔ پہلی صورت میں افضل ترین نیکی حاصل ہو جاتی ہے؛ اور بہت بڑی برائی سے بچا جاتا ہے۔  صراط مستقیم سے منحرف لوگوں ؛ اوربزرگان دین کی شان میں غلو کرنے والوں کے ہاں یہ معاملہ خطرناک حد کو پہنچ چکا ہے۔ان میں سے بعض جب اللہ کے نام کی قسم اٹھاتے ہیں توکسی بھی چیز کی پرواہ نہیں کرتے؛حتی کہ اگر وہ جھوٹا بھی ہو تو قسم اٹھالیتا ہے؛ مگر جب ولی کے نام کی قسم اٹھاتے ہیں تو صرف سچی قسم ہی اٹھاتے ہیں ۔ اس کی وجہ اس انسان کے دل میں پائی جانے والی ولی کی بہت سخت تعظیم و تکریم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی یہ شرک اصغر سخت ترین شکل اختیار کرلیتا ہے؛ اور ملت سے خارج کرنے والا شرک اکبر بن جاتا ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب قسم کھائی جانے والی ہستی کی تعظیم اللہ تعالیٰ کی تعظیم کے برابر یا اس سے بڑھ کر کی جائے۔ ٭٭٭ ٭ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ جواللہ تعالیٰ چاہے اور جو آپ چاہیں ۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کہنے سے منع کیا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے سنا وہ کہہ رہا تھا؛ ’’ جواللہ تعالیٰ چاہے اور جو آپ چاہیں ۔‘‘ تو آپ نے فرمایا:’’ کیا تم مجھے اللہ کے برابر ٹھہراتے ہو ؟۔‘‘ بلکہ یوں کہو: ’’جو صرف ایک اللہ چاہیے۔‘‘  یہاں پر لفظ ’’اور ‘‘ مطلق طور پر مساوات کا فائدہ دیتا ہے۔ اس کے برعکس اگر ’’پھر‘‘ کا لفظ استعمال کیا جائے ؛ اور یوں کہا جائے ’’ جواللہ تعالیٰ چاہے پھر جو آپ چاہیں ‘‘ تو اس میں کوئی حرج نہیں ؛ کیونکہ لفظ ’’پھر ‘‘ تراخی کے لیے آتا ہے۔ ٭٭٭ ٭ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اس طرح کے دیگر الفاظ ‘‘ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس آیت کی تفسیر ہے: ﴿ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ، ﴾ [البقرة 22] ’’پس تم اللہ کے لئے جان بوجھ کرشریک ( برابر والے) نہ ٹھہراؤ۔‘‘ فرمایا: ’’ برابر والے سے مراد شرک ہے۔ جو کہ اندہیری رات میں صاف چٹان پر چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہوتا ہے۔ اوروہ یوں ہوتا ہے کہ کوئی انسان یوں کہے:’’ اللہ کی قسم اور تمہاری زندگی کی قسم ۔ اے فلاں تجھے میری زندگی کی قسم ۔ اور یوں کہنا: اگر فلاں کی کتیا نہ ہوتی تو چور ہمیں آ لیتے۔ اور اگر گھر میں بطخ نہ ہوتی تو چور داخل ہو جاتے۔ اور کسی انسان کا اپنے ساتھی سے یوں کہنا کہ: ’’ جواللہ تعالیٰ چاہے اور جو آپ چاہیں ۔‘‘اوریوں کہنا: اگر اللہ تعالیٰ اور فلاں نہ ہوتے تو یوں ہوجاتا ۔ اس طرح کے تمام جملے شرکیہ ہیں ۔‘‘ (أخرجہ ابن ابی حاتم ؛ تفسیر ؛ 229) ٭٭٭
Flag Counter