Maktaba Wahhabi

121 - 238
’’اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حق اس کے بندوں پر کیا ہے؟اور بندوں کا حق اللہ پر کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں ۔‘‘تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے، کہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔‘‘ عبادت اپنی تمام اقسام کے ساتھ صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اور جو کوئی عبادت کے حق میں سے کوئی بھی چیز کسی غیر کو دیتا ہے- خواہ وہ غیر کوئی بھی ہو-تو وہ اسے اللہ کے حقوق میں سے کسی حق میں اس کے برابر ٹھہراتا ہے۔خواہ یہ معاملہ دعا کا ہویا استغاثہ کا یہ ذبح اور نذر وغیرہ کا یا کسی دیگر عبادت کا ۔پس جو کوئی ان امور عبادت میں سے کسی ایک امر کو کسی غیر کے لیے بجا لاتا ہے؛ تو وہ اس غیر اللہ کو اللہ تعالیٰ کے حقوق میں اس کے برابر کرتا ہے؛ پس ایسا کرنے سے وہ مشرک ہو جاتا ہے؛ جو کہ شرک اکبر کا ارتکاب کرتا ہے جس کی وجہ سے انسان ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ شرک اکبر کی یہی حقیقت ہے۔  ٭ شرک اصغر:.... شیخ رحمہ اللہ اس کا معنی اور مطلب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’جسے کتاب یا سنت کے نصوص میں شرک کے نام سے موسوم کیا گیا ہو، لیکن وہ شرک اکبر کی قسم سے نہ ہو‘‘یعنی ایسا شرک جس میں اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے کسی حق میں کسی غیر اللہ کو اللہ تعالیٰ کے برابر نہیں سمجھا جاتا۔ مثال کے طورپر جب کوئی انسان کسی دوسرے سے مخاطب ہو تو وہ یوں کہے: ’’اللہ جو چاہے اور جو آپ چاہیں ۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے سنا وہ آپ سےایسی ہی بات کہہ رہا تھا؛ تو آپ نے فرمایا:’’ کیا تم مجھے اللہ کے برابر ٹھہراتے ہو ؟۔‘‘اور ایک دوسری روایت میں : کیا تم مجھے شریک بناتے ہو؟بلکہ یوں کہو: ’’جو صرف ایک اللہ چاہیے۔‘‘(أحمد 1839 ؛ ابن ماجہ 2117 ؛ عن ابن عباس ؛ وصححہ الألبانی فی الصحیحة 139) یہ تو محض الفاظ کی بات ہے۔ جب اس انسان نے یہ کلمات ادا کئے تو اس کا ارادہ ہر گز یہ نہیں تھا کہ بندے اور رب کی چاہت کو برابر ٹھہرائے۔ اس لیے کہ اگر یہ امر اس کا مقصود ہوتا ؛ تو بھلے وہ زبان سے الفاظ نہ بھی ادا کرتا تب بھی وہ کفر اکبر کا مرتکب ٹھہرتا۔کیونکہ وہ خالق کی خصائص میں سے کسی ایک خصوصیت میں خالق اور مخلوق کو برابر ٹھہرارہا ہوتا۔  جب یہ الفاظ شرکیہ ہیں ؛ تو ان سے اجتناب کرنا اور زبان کو محفوظ رکھنا واجب ہو جاتا ہے۔حالانکہ ان شرکیہ الفاظ کی جب اصلاح کی جاتی ہے؛ تو بہت سارے لوگ یہی کہتے ہیں : ہمارا مقصود تو یہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کرام نے اس قسم کے شرک کو ’’ الفاظ کاشرک ‘‘ نام دیا ہے۔ پس یوں کہا جائے گا: ’’بھلے آپ کا مقصود یہ نہ ہو؛ تب بھی ان الفاظ کا استعمال جائز نہیں ۔ ایسا کرنا شرک ہے؛ اور ان الفاظ سے اپنی زبان کو محفوظ رکھنا واجب ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں آگے آئیں گی جو شیخ رحمہ اللہ نے پیش کی ہیں ۔ اسے شرک اصغر کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ نصوص شریعت میں ان الفاظ پر شرک کا اطلاق کیا گیاہے؛ لیکن ان کا مقام شرک اکبر تک نہیں پہنچتا ۔ جیسا کہ خود شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’لیکن وہ شرک اکبر کی جنس میں سے نہیں ۔‘‘ یعنی اس قسم کے شرک میں کسی غیر اللہ کو اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے کسی حق میں ؛ اس کی کسی
Flag Counter