Maktaba Wahhabi

247 - 702
مختارات، جو صحیح حاکم سے زیادہ صحیح ہے، میں کی ہے۔ پس اگر کہا جائے کہ ابن جریج کی حدیث میں مجہول راوی ہیں اور وہ بنو رافع کا کوئی شخص ہے اور مجہول راوی کی روایت سے حجت نہیں قائم کی جاسکتی تو اس کا جواب تین صورتوں میں ہے: ’’پہلی صورت: امام احمد نے تخریج کی محمد بن اسحاق کے طریق سے ، انہوں نے کہا کہ مجھے داود بن حصین نے عکرمہ کے واسطے سے بیان کیا اور عکرمہ نے ابن عباس کے واسطے سے ، انھوں نے کہا کہ رکانہ نے اپنی عورت کو طلاق دی۔ پھر پوری حدیث کو ذکر کیا۔ ’’دوسری صورت : یہ مجہول (راوی) تابعین میں سے ہے، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کی اولاد میں سے ہے اور یہ لوگ کذب گوئی میں شہرت نہیں رکھتے اور یہ قصہ معروف و محفوظ ہے، جس کی متابعت داود بن حصین نے کی ہے۔ یہ اس بات پر دال ہے کہ انہوں نے اس کو یاد کیا ہے۔ ’’تیسری صورت: اس روایت پر صرف ایک شخص نے اعتماد نہیں کیا ہے بلکہ ہم نے داود بن حصین کی روایت بیان کردی ہے اور ابو صہبا کی حدیث جو مسلم وغیرہ میں ہے۔ لہٰذا یہ بات واضح ہوئی کہ ان کی روایت کا وجود اور عدم وجود برابر ہے۔ پس داودکی حدیث کافی ہے اور اس طریقے سے ابن اسحاق کی تدلیس کی تہمت اس قول ’’حدثني‘‘ کی بنیاد پر زائل ہوجاتی ہے] پس حدیث داود بن الحصین کی متابع ہے حدیث ابن جریج کی۔ کیونکہ قصہ رکانہ جس میں طلاق ثلاثہ واقع ہے، روایت کیا ہے ابن جریج نے: ’’عن بعض بني أبي رافع عن عکرمۃ عن ابن عباس‘‘ کما أخرجہ أبوداود۔[1] اور روایت کیا ہے داود بن الحصین نے: ’’عن عکرمۃ عن ابن عباس‘‘ کما أخرجہ أحمد بن حنبل وغیرہ۔[2] اور متابعت تامہ اورمتابعت قاصرہ دونوں معتبر ہیں اصول حدیث میں ۔ جواب سوال رابع کا یہ ہے کہ سنن ابی داود میں حدیث ابن عباس جو بایں اسناد مروی ہے: ’’حدثنا أحمد بن صالح نا عبد الرزاق نا ابن جریج أخبرني بعض بني
Flag Counter