Maktaba Wahhabi

230 - 702
[ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بات ثابت ہے کہ انھوں نے امراے اجناد کو ایسے افراد کے بارے میں لکھ بھیجا جو اپنی عورتوں سے غائب تھے کہ یا تو ان کا نفقہ بھیجیں یاطلاق دیں اور اگر وہ طلاق دیتے ہیں تو پچھلا نفقہ بھیجیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کی کسی نے بھی مخالفت نہیں کی ۔ ابن المنذر نے کہا ہے کہ یہ وہ نفقہ ہے جو کتاب و سنت اور اجماع سے واجب ہے۔ اس طرح کے مضبوط دلائل والے وجوب کا زوال یا اسقاط اسی کی مثل سے ممکن ہے] ایضاً اسی کتاب میں ہے: ’’إن الصحابۃ رضی اللّٰه عنہم أوجبوا للزوجۃ نفقۃ ما مضی‘‘[1] [ صحابہ رضی اللہ عنہم نے زوجہ کا گذشتہ نفقہ واجب قرار دیا ہے] ان سب عبارا ت بالا سے یہ بات بہ خوبی ثابت ہوئی کہ معسر کی بی بی بہ سبب اعسار نان نفقہ وغیرہ کے اپنے نکاح کو فسخ کرا سکتی ہے۔ علی ہذا القیاس، بلکہ بدرجہ اولی اس سے موسر کی بی بی بھی ان سب وجوہات سے اپنے نکاح کو فسخ کر ا سکتی ہے۔ اس بات کی موید اثر عمر رضی اللہ عنہ موجود ہے۔ کما لا یخفی علی الماھرین۔ اب رہی یہ بات کہ عورت مذکورہ کس طرح سے اپنے نکاح کو فسخ کرائے؟ سو جواب اس کا یہ ہے کہ اس عورت کو مناسب ہے کہ اپنے استغاثہ کو مع فتوے کے حاکم وقت یا نائب حاکم کے پاس پیش کرے اور ان کی مرضی کے موافق عمل کرے۔ و اللّٰه أعلم وعلمہ أتم۔ حررہ العبد المستکین محمد عین الدین غفرلہ اللّٰه المتین، مٹیا برجی، الکلکتاوی، من المدرسۃ الإسلامیہ الواقعۃ في جمال گنج من مضافات بکوڑا۔ ۰ ۱ محرم الحرام ۱۳۲۷ الھجریۃ علی صاحبھا الصلوۃ والتحیۃ۔ الجواب صحیح۔ واللّٰه أعلم بالصواب۔ حررہ أبو الطیب محمد شمس الحق عظیم آبادي عفی عنہ۔ کتبہ محمد عبداللّٰه ۸ ۲ ربیع الاخر ۱۳۲۷ ھ۔
Flag Counter