Maktaba Wahhabi

218 - 702
کی گواہی نکاح میں درست ہوگی اور یہ مسلک از روئے دلیل کے قوی ہے۔ قال اللّٰه تبارک وتعالی: { وَاسْتَشْھِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ فَاِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَآئِ} [البقرۃ: ۲۸۲] [اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور اپنے میں سے دو دوگواہ رکھ لو ، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنھیں تم گواہوں میں سے پسند کرلو] اور صحیح بخاری وغیرہ میں ہے: ’’عن أبي سعید قال: قال النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم : ألیس شھادۃ المرأۃ مثل نصف شھادۃ الرجل؟ قلن: بلی، قال: فذلک من نقصان عقلھا‘‘[1] [ ابو سعید کے واسطے کہ انھوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے نصف نہیں ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ کیوں نہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی اس کی عقل کا نقصان ہے] پس آیہ کریمہ و حدیث صحیح سے ثابت ہوا کہ دو عورتوں کی شہادت قائم مقام ایک شہادت کے ہے۔ پس یہ حکم عام جمیع احکام شرعی میں جاری ہوگا من غیرتخصیص فی فرد دون فرد اور اس عام کی تخصیص کے لیے صریح سنت مرفوع چاہیے۔ اور وہ جو روایت مسند امام شافعی کی ہے: ’’أخبرنا مالک عن ابن الزبیر قال: أتي عمر رضی اللّٰه عنہ بنکاح لم یشھد علیہ إلا رجل وامرأۃ، فقال: ھذا نکاح السر أجیزہ؟‘‘[2] انتھی [ہمیں بتایا مالک نے ابن زبیر کے واسطے سے ، انھوں نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ کو ایک نکاح کی بابت بتایا گیا جس میں ایک مرد اور ایک عورت گواہ تھے تو انھوں نے کہا کہ یہ مخفی نکاح ہے، اس کی میں کیسے اجازت دوں ؟] پس یہ انکار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اس سبب سے ہوا کہ اس نکاح کا گواہ صرف ایک مرد تھا اور ایک عورت تھی ،حالانکہ اگر ایک مرد موجود تھا تو پھر بجائے دوسرے مر د کے دو عورتوں کا ہونا تھا۔ اور ہدایہ میں ہے :
Flag Counter