Maktaba Wahhabi

217 - 702
نے اوزاعی کے واسطے سے اور انھوں نے زہری کے واسطے سے کہ یہ سنت رائج ہے کہ عورتوں کی گواہی ان امور میں جائز ہے جن امور میں کہ ان کے علاوہ کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ عبدالرزاق نے روایت کیا ہے ابن جریج کے واسطے سے اور انھوں نے ابن شہاب کے واسطے سے، انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ جاری ہے کہ عورتوں کی گواہی ان امور میں جائز ہوگی جن میں ان کے علاوہ کوئی شخص جان کاری حاصل نہیں کرسکتا، جیسے عورتوں کی ولادت اور ان کے عیوب۔ اسی طرح سے زیلعی کی ’’نصب الرایۃ في تخریج أحادیث الھدایۃ‘‘ اور حافظ ابن حجر کی ’’الدرایۃ‘‘ میں ہے] مگر یہ روایتِ زہری مرسل ہے، قابل حجت نہیں ۔ اور لفظ ’’ولا في النکاح ولا في الطلاق‘‘ کا من طریق مالک محفوظ نہیں ہے اور حجاج بن ارطاۃ راوی مدلس ہے، بلکہ کتاب الخراج لابی یوسف القاضی ومصنف ابن ابی شیبۃ وعبدالرزاق میں جملہ ’’ولا في النکاح‘‘ کا نہیں ہے۔ وأخرج الإمام الشافعي في مسندہ: ’’أخبرنا الثقۃ عن ابن جریج عن عبد الرزاق بن القاسم عن أبیہ قال: کانت عائشۃ رضي اللّٰه عنھا یخطب إلیھا المرأۃ من أھلھا فتشھد، فإذا بقیت عقدۃ النکاح قالت لبعض أھلھا: زوج، فإن المرأۃ لا تلي عقدۃ النکاح‘‘[1]انتھی [اور امام شافعی نے اپنی مسند میں تخریج کیا ہے: انھوں نے کہا کہ ہمیں ثقہ راوی نے ابن جریج کے واسطے سے بتایا، انھوں نے عبد الرزاق بن قاسم کے واسطے سے اور انھوں نے اپنے والد سے کہ انھوں نے کہا کہ حضرت عائشہ کے پاس ان کے خاندان کی کسی عورت کے لیے پیغام نکاح لایا جاتا تو وہ حاضر ہوتیں اور جب نکاح کا عقد باقی رہ جاتا تو گھر والوں کو کہتیں کہ اس کا نکاح کر دو، کیونکہ عورت نکاح نہیں کرا سکتی۔ ختم شد] اس روایت میں امام شافعی کے شیخ کا نام مذکور نہیں ہے، پس علی قاعدہ المحدثین سند اس کی صحیح نہیں ہوئی۔ اور قطع نظر حکم عام قرآن شریف کی تخصیص کے لیے حدیث صحیح مر فوع چاہیے، نہ اثر موقوف صحابہ۔ اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک عورت کی شہادت نکاح میں جائز ہے، پس ایک مرد و دو عورت
Flag Counter