Maktaba Wahhabi

144 - 702
پھر اسے خواب میں دیکھا گیا اور اس سے پوچھا گیا (تیرے ساتھ قبر میں کیا معاملہ کیا گیا) تو اس نے جواب دیا: جب مجھے قبر میں رکھا گیا تو میرے پاس عذاب والے فرشتے آئے، مگر جب انھوں نے میری پیشابی پر ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ لکھا ہوا دیکھا تو انھوں نے (مجھے) کہا: تو اﷲ کے عذاب سے بچا لیا گیا ہے] اور ابن عابدین نے ’’ردّ المحتار‘‘ میں کہا: ’’قولہ: یرجی۔۔ الخ مفادہ الإباحۃ أو الندب، و في البزازیۃ قبیل کتاب الجنایات: وذکر الإمام الصفاء لو کتب علی جبھتہ المیت أو علی عمامتہ و کفنہ عھد نامہ، یرجی یغفر اللّٰه تعالی للمیت، و یجعلہ آمنا من العذاب، قال نصیر: ھذہ روایۃ في تجویز ذلک، وإن الفقیہ ابن عجیل کان یأمر بہ، ثم أفتی بجواز کتابتہ قیاسا علی کتابۃ ’’للّٰہ‘‘ في إبل الزکوٰۃ، وأقرہ بعضھم‘‘[1] انتھی مختصرا [ (درمختار کے مصنف کا) یہ قول ’’یُرْجٰی‘‘ اس سے زیادہ سے زیادہ اس عمل کے مباح یا مندوب ہونے کا پتا چلتا ہے اور بزازیہ میں کتاب الجنایات سے تھوڑا پہلے مرقوم ہے: امام صفا کا یہ ذکر کرنا کہ اگر میت کی پیشانی پر یا اس کے عمامے پر اور کفن پر عہد نامہ تحریر کیا جائے تو امید کی جاتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس میت کو بخش دے گا اور اسے عذابِ قبر سے محفوظ فرما لے گا۔ نصیر نے کہا: اس روایت سے مذکورہ عمل کے جائز ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ فقیہ ابن عجیل اس کے لکھنے کا حکم دیا کرتے تھے، پھر انھوں نے زکوۃ کے اونٹ پر ’’ﷲ‘‘ لکھنے پر قیاس کرتے ہوئے میت پر عہد نامہ لکھنے کے جواز کا فتویٰ دیا اور بعض نے اس کو درست کہا] اور بھی ’’ردّ المحتار‘‘ میں کہا: ’’نقل بعض المحشین عن فوائد الشرجي أن مما یکتب علی جبھۃ المیت بغیر مداد بالأصبع المسبحۃ ’’بسم اللّٰه الرحمن الرحیم‘‘ و علی الصدر ’’لا إلہ إلا اللّٰه محمد رسول اللّٰه ‘‘، و ذلک بعد الغسل قبل التکفین‘‘[2] انتھی
Flag Counter