Maktaba Wahhabi

141 - 702
اور ہدایہ میں مرقوم ہے کہ قبیلہ ثقیف کے جو سفیر آئے تھے اور وہ کفار تھے، ان کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسجد میں اتارا تھا۔[1]تفسیر ابو السعود اور تفسیر مظہری و دیگر کتب معتبرہ میں مرقوم ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو بھی اپنی مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے، جو کہ مسلمان بھی نہ تھے، بلکہ عیسائی مذہب رکھتے تھے اور وہ لوگ مع افسر، جس کا نام عبد المسیح تھا، ساٹھ آدمی تھے۔ یہ سب لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ طیبہ میں مقامِ نجران سے سفیر آئے تھے، آپ کی مسجد میں داخل ہوئے، وہیں ان کی نماز کا وقت آگیا، نماز پڑھنے کو کھڑے ہوگئے۔ بعض اشخاص حاضرین ان کے مزاحم ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کو نماز پڑھنے کی اجازت دی اور ان بے جا مزاحمت کرنے والوں کو ان کے اس بے جا مز احمت سے روکا۔ انھوں نے حسب اجازت خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مقدس مسجد میں اپنے طریقہ کے مطابق رو بمشرق یعنی بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی۔[2] عجیب امر ہے کہ حضرت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تو غیر مذہب والوں کو بھی اپنی مقدس مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دیں اور اب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مسجد میں آنے اور نماز پڑھنے سے روکتا ہے اور منع کرتا ہے اور پھر دعویٰ کرتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں ؟ یہ تعصب اور نفسانیت ہے۔ اﷲ جل شانہ سب مسلمانوں کو نیکی کی توفیق دے اور نفسانیت اور تعصب اور ضد سے بچاوے۔ واللّٰه اعلم بالصواب حررہ العاجز، ابو ظفر محمد عمر، عفا عنہ۔ قد صح الجواب، واللّٰه اَعلم بالصواب۔ حررہ أبو الطیب محمد شمس الحق العظیم آبادی۔ الجواب صحیح والمجیب نجیح۔ ابو عبداللّٰه مولا بخش خان بھازی، الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبداللّٰه ۔ أصاب من أجاب، واللّٰه یوفقني إلی الصواب ویھدي کل مانع إلی ترک الخراب۔ ألطاف حسین۔ عفا عنہ رب المشرقین والمغربین۔ الفاضل پوری۔ (مہر مدرسہ)
Flag Counter