Maktaba Wahhabi

140 - 702
الناس إذنا عاما جازت صلوتہ، شھدتھا العامۃ أو لا، وإن لم یفتح بابہ و لم یأذن لھم بالدخول لا یجزئہ‘‘ انتھی [جمعے کی شروط میں سے اِذنِ عام (عام اجازت) ہے، یعنی جامع مسجد کے دروازوں کو کھول دے اور لوگوں کو آنے کی اجازت دے، حتی کہ اگر ایک جماعت اکٹھی ہو کر جامع مسجد میں دروازے بند کر کے جمعہ پڑھ لے تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح بادشاہ اگر اپنے محل میں اپنے لوگوں کو لے کر نماز پڑھے تو اگر وہ دروازے کھول کر لوگوں کو آنے کی عام اجازت دے دے تو اس کی نماز صحیح ہے، عام لوگ آئیں یا نہ آئیں ، لیکن اگر اپنا دروازہ نہیں کھولتا اور لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا تو اس کا جمعہ نہیں ہوگا] اور کافروں کو مسجد میں اجازت آنے کی دینا حنفی مذہب میں درست ہے، جیسا کہ خاتم المفسرین مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی تفسیر ’’فتح العزیز‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’وامام اعظم رحمہ اللہ میگو یند کہ در آمدن کا فر در ہمہ مساجد درست است زیراکہ در زمان سعادت نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مہمان را گو کافر بودند در مسجد فرو کش میکنانیدند چنانچہ وفد ثقیف را ودگر وفود را و نیز بتواتر معلوم ست کہ برائے ملاقات آنحضرت علیہ السلام یہودیان و نصاریٰ و مشرکی بے طلب اذن و پروانگی در مسجد می آمدند و می نشستند و ثمامہ بن اثال حنفی را آنحضرت علیہ السلام در حالت کفر بستونے از ستو نہائے مسجد بستہ گزاشتہ بو دند و ناسخ ایں عمل مستمر آنحضرت علیہ السلام ہم وارد نشدہ‘‘ انتھی [امام اعظم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کافر کا ہر مسجد میں آنا درست ہے، کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ سعادت نشان میں مہمان کو، اگرچہ وہ کافر ہی ہوتا ہے، مسجد میں ٹھہرایا جاتا تھا۔ چناں چہ وفدِ ثقیف اور دیگر وجود مسجد ہی میں فروکش ہوئے تھے۔ نیز تواتر کے ساتھ یہ معلوم ہوا ہے کہ یہودی، نصرانی اور مشرکین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لیے اذن و اجازت طلب کیے بغیر مسجد میں آتے اور بیٹھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ بن اثال حنفی کو حالتِ کفر میں مسجد (نبوی) کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس متواتر سنت اور طریقے کو منسوخ کرنے والی کوئی چیز بھی وارد نہیں ہوتی ہے]
Flag Counter