Maktaba Wahhabi

138 - 702
[یہ حکم ہر مسجد کو شامل ہے اور یقینا مساجد میں اﷲ کے ذکر سے روکنے والا حددرجہ ظالم ہے۔ اس کا سبب نصاریٰ کا بیت المقدس میں گندگی پھینکنا اور لوگوں کو اس میں نماز پڑھنے سے روکتا ہے یا مشرکین کا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ والے سال مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ آیت میں جمع کا لفظ ’’مساجد اﷲ‘‘ (اﷲ کی مسجدیں ) اس لیے بولا گیا ہے، حالاں کہ یہ ممانعت ایک مسجد بیت المقدس یا مسجد حرام سے ہوئی تھی، کیوں کہ یہ حکم عام ہے، اگرچہ اس کا سبب خاص ہے] خاتم المحدثین والمفسرین مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی قدس سرہ تفسیر ’’فتح العزیز‘‘ میں فرماتے ہیں : { اَرَاَیْتَ الَّذِیْ یَنْھٰی عَبْداً إِذَا صَلّٰی} ’’کیا دیکھا تونے اس شخص کو جو منع کرتا ہے اور روکتا ہے بندے کو جب چاہتا ہے کہ نماز پڑھے۔‘‘ ’’اور حق بندے کا یہی ہے کہ اپنے پروردگار کی عبادت ہاتھ اور پاؤں سے اور دل اور زبان سے بجا لاوے، اور ایسی عبادت جو ان سب باتوں کو جامع ہو، سوائے نماز کے نہیں ہے، اور حق خدا کا یہ ہے کہ معبود ہو ہر عبادت میں ، پھر اس منع کرنے والے نے بندے کا حق بھی تلف کیا اور خدا کا حق بھی تلف کیا تو اس کی سرکشی اور نافرمانی خدا سے اور اس کے بندوں سے بھی ثابت ہوئی ہے اور یہ شخص ابو جہل تھا۔ کئی مرتبہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجدِ حرام میں نماز پڑھنے سے منع کیا تھا، بلکہ یہ کہا تھا کہ اگر میں تجھ کو دیکھوں گا کہ اپنے متھے کو زمین پر رکھا ہے تو تیری گردن کاٹ ڈالوں گا۔ ہر چند یہ آیت اس لعین کے حق میں نازل ہوئی، لیکن اب بھی جو شخص اﷲ تعالیٰ کی بندگی سے روکے اور منع کرے، وہ بھی اسی وعید اور برائی میں شامل ہے۔‘‘ انتہی بے شک جس مسجد میں اذن عام نہ ہو اور جمعہ کی نماز پڑھنے سے کسی کو روک دیا جائے، وہاں جمعہ مطابق مذہب حنفی کے درست نہیں ، جیسا کہ اور شروط مثل وقتِ ظہر اور جماعت وغیرہ کے نہ پائے جانے سے جمعہ کی نماز درست نہیں ہوگی۔ اگر کسی نے ظہر کے وقت سے پہلے یا بغیر جماعت کے جمعہ کی نماز پڑھی تو کسی طرح درست نہیں ہوگی، اسی طرح اذن عام نہیں پائے جانے سے درست نہیں ۔ در مختار میں ہے:
Flag Counter