Maktaba Wahhabi

328 - 331
کے پھندے میں نہ آجانا۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو بالکل پسند نہیں فرمایا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر مدح اور تعریف کریں تاکہ وہ غلو میں مبتلا ہو جائیں اور اس کی صراحت فرمائی کہ کسی کے منہ پر تعریف کرنے والا اگرچہ جس معاملے میں تعریف کی جا رہی ہے،وہ اس میں موجود ہی ہو،شیطانی عمل کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ تعریف کرنے والا اپنے ممدوح کو بہت ہی پر عظمت اور اعلیٰ و ارفع سمجھے گا تو اس کی تعریف کے گا اور یہ کمالِ توحید کے منافی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عبادت کا ایک مخصوص انداز اور خاص مرکز و محور ہے جس کے اردگرد عبادت کا پورا نظام گھومتا ہے اور وہ محور ہے کسی کی محبت میں اس کے سامنے انتہائی عجز و تذلل سے پیش آنا اور یہ عجز و تذلل خضوع و خشیت اور مسکنت کو مستلزم ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے۔ جب تعریف اور مدح کی وجہ سے انسان کے دماغ میں بڑا پن یا فخر و عجب کی کیفیت ابھر آئے گی تو عبدیت کے خاصہ میں عظیم نقص پیدا ہو جائے گا جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’بڑائی میری چادر اور عظمت میرا لباس ہے،جو شخص میری ان دونوں(صفات)میں سے کسی ایک کو چھیننے کی کوشش کرے گا میں اُسے عذاب دوں گا۔‘‘(مسلم،ابوداؤد،ابن ماجہ)۔ایک روایت میں یوں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’’جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی کبر ہوا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا‘‘(مسند احمد)اپنی مدح اور تعریف کو پسند کرنا بعض اوقات ذہنی اور دینی آفات و مصائب میں مبتلا ہونے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔یہ بات ہر شخص کے ذہن میں رہنی چاہیئے کہ عُجب اور فخر اعمالِ صالحہ کو اس طرح کھا جاتے ہیں جیسے آگ لکڑی کو۔ یہ احتیاطی تدابیر اس لئے اختیار کی گئیں تاکہ عقیدۂ توحید کی پوری طرح حفاظت کی جا سکے اور اس میں کوئی ایسی بات شامل نہ ہو جائے جو بنیادی طور پر اس کے مزاج کے منافی ہو۔اور پھر کہیں نوبت یہاں تک نہ پہنچ جائے کہ شرک اور اس کے جراثیم،اس کی اساس کو کمزور کر دیں۔ کسی شخص کو ’’السید‘‘ کہہ کر پکارنے میں علماء کا اختلاف ہے۔علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب:’’بدائع الفوائد‘‘ میں لکھتے ہیں:بعض علماء نے یہ لفظ کہنا ناجائز قرار دیا ہے۔یہ علمائے کرم اس باب میں اسی حدیث کو بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاسیدنا کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’السید اللہ تبارک و تعالیٰ۔‘‘ اور بعض علمائے کرام نے اس کو جائز ٹھہرایا ہے۔ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انصاری ساتھیوں سے فرمایا تھا کہ ’’اپنے سید کے لئے کھڑے ہو جاؤ۔‘‘ یہ حدیث پہلی
Flag Counter