Maktaba Wahhabi

304 - 331
عبداللہ بن ابی اور اُس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘ یعنی یہ الفاظ عبداللہ بن ابی نے کہے تھے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے جنگ اُحد کا نقشہ یوں بیان فرمایا کہ:’’جنگ اُحد کے میدان میں ہم دشمن کے مقابلہ پر صف آراء تھے کہ ہم پر غنودگی کی سی کیفیت طاری ہو گئی یہاں تک کہ میری تلوار ہاتھ سے بار بار گرتی اور میں اُسے بار بار پکڑتا اور منافقین کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے بچاؤ کی تدابیر میں مصروف تھے ساری فوج میں زیادہ بزدل ڈرنے والے اور حق و انصاف کو پامال کرنے میں پیش پیش یہی لوگ تھے۔(اللہ کریم کے بارے میں طرح طرح کی بدگمانیوں میں مبتلا تھے یہ خالص جاہلیت کی عادت ہے)منافقین کا یہ گروہ اللہ تعالیٰ کے متعلق شکوک و شبہات کا شکار ہو کر رہ گیا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’غزوہ اُحد کے موقع پر مشہور منافق عبداللہ بن اُبی مسلمانوں سے علیحدہ ہو کر اپنے دوسرے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ:’’دیکھئے نہ تو اپنی بات پر عمل کیا اور نہ میری بات کو تسلیم کیا،بلکہ بچوں کی رائے کو اوّلیت دی۔‘‘ اس منافق کی یاوہ گوئی سن کر بہت سے سادہ دِل مسلمان اس کے ساتھ ہو گئے جو اس سے قبل منافق نہ تھے بلکہ وہ مسلمان تھے اور ان کے دلوں میں ایمان تھا ایمان ایک ایسا نور ہے جس کی مثال قران کریم میں متعدد بار بیان کی گئی ہے۔اگر یہ لوگ اس امتحان اور نفاق سے قبل فوت ہو جاتے تو ان کی موت اسلام پر متصور ہوتی البتہ ان کا ایمان اس مرتبہ کا نہ ہوتا جن کا امتحان ہوا اور وہ اس امتحان میں ثابت قدم رہے،اور نہ یہ ان منافقین کی طرح ہوتے جو آزمائش کے وقت مرتد ہو گئے تھے۔آجکل اکثر مسلمانوں کا تقریباً یہی حال ہے کہ بوقت آزمائش اُن کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں جس سے ایمان میں کمزوری اور نقص پیدا ہو جاتا ہے اور ان میں کی اکثریت اپنے اُوپر نفاق کی چادر اوڑھ لیتی ہے اور بعض تو دشمن کا غلبہ اور طاقت سے مرغوب ہو کر ارتداد کا برسرعام اعلان کر دیتے ہیں یہ بات ہمارے اور دوسرے لوگوں کے ذاتی تجربہ میں بھی آ چکی ہے کہ اگر میدانِ جنگ میں مسلمانوں کا غلبہ ہو اور کسی بڑی تکلیف کا سامنا نہ ہو تو پھر ایسے کمزور مسلمان ہی رہتے ہیں۔ظاہر اور باطن میں انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ایسا ایمان آزمائش کے وقت ثابت نہیں رہتا یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ فرائض کے تارک اور محارم کے دلدادہ ہوتے ہیں۔اور یہی وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ان سے کہا گیا کہ ’’تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ ہم اسلام لائے اور تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا۔‘‘(الحجرات)۔اس آیت میں اس ایمان کا ذکر ہے جو سچے مومنین کا امتیازی نشان ہے۔کتاب و سنت میں جب بھی ایمان کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے یہی ایمان مراد ہوتا ہے
Flag Counter