Maktaba Wahhabi

233 - 331
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ کے معنی یہ بیان فرماتے ہیں کہ:’’جو شخص دنیاوی زندگی میں اپنے اعمال کا بدلہ اور اس کی زیب و زینت کی خواہش کرتا ہے،ہم اُس کے اعمال کا بدلہ صحت و تندرستی،اہل و عیال اور مال و متاع میں مسرت و بہجت کی صورت میں عطا کرتے ہیں اور وہ اس میں گھاٹے میں نہیں رہتے۔‘‘ مندرجہ بالا آیت عام تھی اور اس کو درج ذیل آیت نے خاص اور مقید کر دیا کہ:(ترجمہ)’’جو کوئی دنیا کا خواہشمند ہو اُسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں۔‘‘ جناب قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’جس شخص کی نیت،خواہش اور مقصود صرف دنیا ہی ہو،اللہ تعالیٰ اُس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا ہی میں چکا دیتا ہے۔ایسا شخص دنیا سے خالی ہاتھ جاتا ہے۔اس کے اعمال نامہ میں کوئی قابل ذکر عمل نہیں ہوتا جس کا اسے معاوضہ ملنا باقی ہو،البتہ مومن کو دنیا میں بھی اعمال حسنہ کا بدلہ ملتا ہے اور آخرت میں بھی وہ اجر جزیل کا حقدار ہوگا۔‘‘ ابن جریر رحمہ اللہ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی لمبی حدیث بیان کرتے ہیں:’’شفی بن ماتع اصبحی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے دیکھا کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے اندر ایک شخص کے ارد گرد کثیر تعداد میں لوگ جمع ہیں۔پوچھا کہ لوگوں نے کس شخص کو گھیر رکھا ہے؟ جواب دیا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ درسِ حدیث دے رہے ہیں۔شفی بن ماتع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں بالکل قریب جا کر اُن کے سامنے بیٹھ گیا۔جب درس ختم ہوا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے اللہ کی قسم دے کر یہ سوال کرتا ہوں کہ آپ مجھے وہ حدیث سنائیں جو آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی اور یاد کی ہو۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے:میں آپ کو وہی حدیث سناؤں گا جو میں نے اس گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی تھی۔اس وقت میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی اور شخص نہ تھا۔یہ کہہ کر وہ بیہوش ہو گئے۔کافی دیر بعد سنبھلے اور فرمانے لگے کہ آج میں تم کو وہی حدیث سناؤں گا جسے میں نے اس گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا تھا اور اُس وقت میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہ تھا۔یہ کہہ کر پھر بیہوش ہو گئے۔کافی دیر بعد ہوش میں آئے تو فرمانے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ:’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ عرشِ عظیم سے اُتر کر اپنے بندوں کے پاس آئے گا تاکہ ان کا فیصلہ کر دیا جائے اور ہر اُمت گھٹنوں کے بل گری ہو گی۔سب سے پہلے ان تین اشخاص کو بلایا جائے گا۔قاری قرآن کو،شہید فی سبیل اللہ کو اور مالدار کو۔سب سے پہلے قاری قرآن سے سوال ہو گا کہ میں نے جو قرآن اپنے رسول پر اتارا تھا کیا تجھے اس کا علم نہیں سکھایا؟ قاری کہے گا کہ ہاں ٹھیک ہے۔اللہ تعالیٰ سوال کرے گا،علم کے مطابق عمل کیا؟ قاری جواب دے گا
Flag Counter