Maktaba Wahhabi

178 - 331
سخت ہو جائے۔سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے قطران کا ترجمہ ’’پگھلا ہوا تانبہ‘‘ کیا ہے۔ ولھما عن زید بن خالد قَالَ صَلّٰی لَنَ رَسُوْلُ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم صَلٰوۃَ الصُّبْحِ بِالْحُدَیْبِیَّۃِ عَلٰی إِثَرِسَمَآئٍ کَانَتْ مِنَ اللّیْلِ فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ ھَلْ تَدْرُوْنَ مَا ذَا قَالَ رَبُّکُمْ قَالُوْا أَللّٰه وَ رَسُوْلُہٗ أَعْلَمُ قَالَ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِیْ مُؤمِنٌ بِیْ وَ کَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللّٰه وَ رَحْمَتِہٖ فَذٰلِکَ مُؤمِنٌ بِیْ کَافِرٌ بِالْکَوَاکِبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَوْئِ کَذَا وَ کَذَا فَذَالِکَ کَافِرٌ بِیْ مُؤمِنٌ بِالْکَوَاکِبِ صحیحین میں زید بن خالد سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ِ حدیبیہ میں ہمیں صبح کی نماز ایسی رات میں پڑھائی جس میں بارش ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازسے فارغ ہو کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ کیا تمہیں پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا ہے ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آج صبح میرے بہت سے بندے مومن ہوگئے اور بہت سے کافر۔پس جس نے کہا کہ یہ بارش اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کی رحمت سے ہوئی ہے وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں سے اس نے کفر کیا۔اور جس نے کہا کہ یہ بارش فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے ہوئی ہے اس نے مجھ سے کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بارش کے متعلق جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ انواء کی وجہ سے اور ان کے اثر کی وجہ سے بارش ہوئی ہے تو یہ شخص کافر ہے کیونکہ وہ شرک فی الربوبیت کا مرتکب ہوا ہے اور ہر مشرک کافر ہوتا ہے اور جو شخص انواء وغیرہ کی تاثیر کا معتقد نہیں بلکہ اس نے رسماً یہ جملہ کہہ دیا ہے تو یہ شرکِ اصغر ہے،کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کو غیر اللہ کی طرف منسوب کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی ستارے میں کسی قسم کا کوئی بھی سبب بارش برسنے کا نہیں رکھا۔یہ تو اس کا خاص فضل اور احسان ہے کہ جب چاہتا ہے بارش برساتا ہے اور جب چاہتا ہے اُسے روک لیتا ہے۔زیر بحث حدیث اس بات پر واضح دلیل کی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ افعال،جن کا تعلق صرف اللہ کی ذات سے ہے ان کو غیر اللہ کی طرف مجازاً بھی منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ اس مقام پر ایمان کی حقیقت کو سمجھنا چاہیئے۔فضل اور رحمت اللہ تعالیٰ کی دو صفتیں ہیں اور اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے،یا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صفات،اللہ تعالیٰ کی بیان کی ہیں،وہ صفات قائم بالذات ہیں،کسی غیر کی محتاج نہیں،خواہ وہ صفات ذات سے تعلق رکھتی ہوں جیسے حیات،علم یا افعال سے،جیسے رحمت وغیرہ۔اس مسئلے کو خوب غور سے سمجھ لینا چاہیئے،کیونکہ اس مسئلے میں بہت سے لوگوں نے لغزش کھائی اور
Flag Counter