Maktaba Wahhabi

100 - 331
’’زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے اور پھر اسی کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘(سورۃ یٰسین:۸۳)یعنی سفارش بھی اُسی کی ہو گی جس کے قبضہ و قدرت کے دائرے آسمان و زمین تک وسعت پذیر ہیں۔‘‘ قولہ تعالیٰ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ(البقرۃ:۲۵۵) کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ اس آیت کریمہ میں اُس شفاعت کا ذکر ہے جو میدانِ محشر میں اللہ تعالیٰ کی اجازت اور اس کے حکم سے کی جائے گی۔اس سلسلے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(ترجمہ)اُس روز سفارش کچھ فائدہ مند نہ ہو گی مگر اُس شخص کی جس کو اللہ تعالیٰ اجازت دے دے،اور اس کی بات کو پسند فرما لے۔‘‘ اس سے پتہ چلا کہ جب کسی شخص میں دو شرطیں پائی جائیں گی تو وہ سفارش کر سکے گا:۱۔جس کو اللہ تعالیٰ اجازت دیدے کہ تم سفارش کر سکتے ہو۔۲۔جس کے لئے شفاعت کرنے پر اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے۔ قولہ تعالٰی وَ کَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُھُمْ شَیْئًا اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللّٰه لِمَنْ یَّشَاءُ وَ یَرْضٰی(النجم:۲۶) آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں،ان کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آ سکتی جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں اِس کی اجازت نہ دے جس کے لئے وہ کوئی عرضداشت سننا چاہے اور اُس کو پسند کرے۔ اس آیت کریمہ اور سابقہ دونوں آیات کا مطلب ایک ہی ہے۔علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’جب مقرب اور برگزیدہ فرشتوں کا یہ علم ہے کہ وہ بھی بارگاہِ قدس میں دم نہیں مار سکتے تو یہ جاہل اور احمق لوگ غیر اللہ اور معبودانِ باطل سے کس طرح توقع اور اُمید لگائے بیٹھے ہیں؟ جن کی عبادت کا اللہ تعالیٰ نے نہ شریعت میں کوئی حکم فرمایا اور نہ اجازت دی۔بلکہ اس کے برعکس تمام انبیائے کرام کے ذریعہ سے اس کی تردید اور ممانعت فرمائی،اور اپنی نازل کردہ کتب میں اس کی نفی کی۔‘‘ قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰه(بنی اسرائیل:۵۶) (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان مشرکین سے)کہو کہ پکار دیکھو اُن اپنے معبودوں کو جنہیں تم اللہ کے سوا اپنا معبود سمجھ بیٹھے ہو۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ ان آیات پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ:’’اللہ تعالیٰ نے ان تمام اسباب اور ذرائع
Flag Counter