ناداری اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک حقیر وجود ہے جسے خدا نے اپنی رحمت اور مہربانی سے چند اختیارات دیئے ہیں اب انصاف کا تقاضہ ہے کہ انسان ان اختیارات کو خدا کے احکامات کے مطابق استعمال کرے اگر وہ ان احکامات کی خلاف ورزی کریگا تو خدا کی لاٹھی سے نہ بچ سکے گا اللہ تعالیٰ نے انسان کو جب زمین پر بھیجا تو ایک ضابطہ حیات بھی دیا تاکہ وہ صحیح راستے پر اپنی زندگی گزار سکے لہذا ایمان باللہ کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کے معاملات خدا کے سپرد کر دے اور ہر شعبہ زندگی میں خدائی احکام کی پیروی کرے معاشرتی مسائل ہوں یا معاشی، تجارتی اصول ہوں یا سیاسی تعلیمی پالیسی ہو یا عائلی قوانین، مُلکی و بین الاقوامی تعلقات ہوں یا انفرادی و اجتماعی معاملات تمام امور کو قرآن و سنت کی روشنی میں طے کیا جائے اسلام کا سارا نظام خشت اوّل سے لے کر کنگرے تک خدا پرستی کی بنیاد پر قائم ہے خدا پرستی کا یہ تصور دین حق میں اس طرح محض رسم اور تکلیف کے طور پر موجود نہیں جس طرح کہ کسی ثقافتی شو یا کسی سینما ہال کے افتتاح کے وقت قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے یہاں خدا پرستی کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کا پورا نظام مادی اقتدار کی بجائے ان اخلاقی اقدار پر قائم ہے جو ہمیں باری تعالیٰ نے اپنے رسول کی وساطت سے عطا کیا ہے۔
قُلْ اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ (انعام 162-63)
کہو میری نماز میرے تمام مراسم عبودیت ، میرا جینا اور مرنا سب اللہ رب العالمین کیلئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اسی کا حکم مجھے دیا گیا اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں عالم اسلام کے عظیم مفکر سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ایک مکمل اسلامی زندگی کی عمارت اگر اُٹھ سکتی ہے تو صرف اسی اقرار توحید پر اُٹھ سکتی ہے جو اِنسان کی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی پر وسیع ہو جس کے مطابق اِنسان اپنے آپ کو اور اپنی ہر چیز کو خد اکی مُلک سمجھے اس کو اپنا اور تمام دنیا کا ایک ہی جائز مالک، معبود، مطاع او رصاحب امرونہی تسلیم کرے۔ اس کو ہدایت کا سر چشمہ مانے او رپورے شعور کے ساتھ اس حقیقت پر مطمئن ہو جائے کہ اللہ کی
|