Maktaba Wahhabi

79 - 129
اطاعت سے حقوق و اختیارات میں غیر کی شرکت جس پہلو اور رنگ میں ہو سراسر ظلالت ہے پھر اس عمارت میں اگر استحکام پیدا ہو سکتا ہے تو صرف اسی وقت جبکہ آدمی ارادے کے ساتھ یہ فیصلہ کرے کہ وہ اس کا سب کچھ اللہ کا ہے اللہ ہی کیلئے ہے اپنے معیار پسند و ناپسند کے تابع کردے اپنی خودسری کو مٹا کر اپنے نظریات و خیالات و خواہشات، جذبات اور انداز فکر کو اس علم کے مطابق ڈھال لے جو خدا نے اپنی کتاب میں دیا ہے اپنی تمام ان وفاداریوں کو دریا برد کر دے جو خدا کی وفاداری کے تابع نہ ہوں بلکہ اس کے مدمقابل بنی ہوئی ہوں یا بن سکتی ہوں اپنے دل میں سب سے بلند مقام پر خدا کی محبت کو بٹھائے اور ہر اس بت کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نہانخانہ دل سے نکال پھینکے جو خد اکے مقابلے میں عزیز تر ہونے کا مطالبہ کرتے ہوں اپنی محبت اور نفرت اپنی دوستی اور دُشمنی اپنی رغبت اور کراہیت اپنی صلح اور جنگ ہر چیز کو خدا کی مرضی میں اسطرح گم کر دے کہ اس کا نفس وہی چاہنے لگے جو خدا چاہتا ہے اور اسی سے بھاگنے لگے جو خدا کو ناپسند ہے یہ ہے ایمان باللہ کا حقیقی مرتبہ عاجزی و انکساری کو اپنانا یہ ایک حقیقت ہے کہ جب انسان خد اکو بھول جائے تو اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے لہٰذا ایمان باللہ کا تقاضہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر وقت یا درکھا جائے کیونکہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا تمام عقائد و عبادات کی روح ہے انسان کو چاہیئے کہ اپنے نفع و نقصان، تمناؤں محبتوں اور التجاؤں کا مرکز اللہ رب العالمین کی ذات کو بنائے مولانا وحید الدین خان لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی دنیا میں بسانے کیلئے وہ انسان مطلوب ہے جو اللہ کو نہ دیکھتے ہوئے بھی اسطرح رہے جیسے کوئی اللہ کو دیکھ کر رہتا ہے اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور اس کے کمالات آدمی کے ذہن پر اس طرح چھا جائیں کہ وہ ہر وقت اس کو یاد آنے لگے اس کا دل خدا کی باتوں سے لبریز رہے اور اس کی زندگی خدا کے گرد گھومنے لگی ایک آقا اپنے اس ملازم سے بہت خوش ہوتا ہے جو آقا کی غیر موجودگی میں بھی مکمل طور پر اس کا وفادار بنا رہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کو وہ سب سے زیادہ پسند ہے جو اللہ کو نہ دیکھ کر بھی اسی طرح رہتا ہو جیسے وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے ایمان باللہ کا تقاضہ ہے کہ
Flag Counter