Maktaba Wahhabi

211 - 331
عیسائیت کے متعصبانہ رویے کی بجائے اسلام کی فراخدلی، قرونِ وسطیٰ میں دوسرے ممالک میں رائج جہالت اور توہم پرستی کے مقابلے میں مسلمانوں کا علم اور تمدن اور آخرت کے حوالے سے مسیحی کفارے کی بجائے جزا وسزا کا منطقی نظریہ ، یہ چند نکات تھے جنھوں نے پہلے پہل مجھے متاثر کیا۔ بعد میں مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ ایک ایسا دین ہے جو پوری انسانیت کا احاطہ کرتا ہے۔غریبوں اور امیروں کو یکساں رہنمائی فراہم کرتا ہے اور رنگ و نسل اور عقیدے پر مبنی تعصبات سے پاک ہے۔ مسلم مشن (Muslim Mission) سے میں نے نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے بارے میں کچھ اور معلومات حاصل کیں ۔ ووکنگ (Woking) کی مسجد کے امام صاحب میرے تمام اعتراضات اور تنقیدی سوالات کے بہ خوشی جوابات دیتے رہے۔ ان کے دوستانہ اور دلچسپ خطوط نے اس مذہب کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے میں میری حوصلہ افزائی کی۔ اسلام کی حقانیت اور تمام روحانی ضروریات کی تکمیل کرسکنے کی اہلیت دیکھ کر تقریباً ایک دو ماہ بعد ہی میں خود کو مسلمان سمجھنے لگا۔تاہم میں نے جلد بازی کرنا مناسب نہ سمجھا بلکہ اپنے اس نئے مذہب کے ہر پہلو پر غورو خوض کرنے کے بعد بالآخر اسے اپنا ضابطۂ حیات بنایا۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ آسانی سے ہاتھ آنے والی چیزیں آسانی سے کھو بھی جاتی ہیں ۔ اسی طرح کسی غور وخوض کے بغیر اختیار کیے ہوئے عقائد آسانی سے رَد بھی کر دیے جاتے ہیں ۔ اس لیے میں نے اسلام پر ہر تنقیدی کتاب کا مطالعہ کیا ۔ خاص طور پر نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی تعلیمات کے بارے میں مغربی مصنفین کی کتابیں پڑھیں ۔ جو کچھ میں نے پڑھا اس میں کئی باتیں اسلام کے خلاف تھیں ۔مگر بہتر اور غیر جانبدار مصنفین نے بالعموم اسلام کی قدر و قیمت، اس کے نظریۂ تہذیب اور بعض نے تو اس کے پیغام کی صداقت کا بھی اعتراف کیا۔ میں نے ایک پڑھے لکھے صائب الرائے دوست سے اپنے اسلامی عقائد پر بحث کر کے بھی ان عقائد کی مزید جانچ پرکھ کی۔ مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ میرا دوست بہت سی باتوں میں میر ا ہم خیال نکلا۔
Flag Counter