Maktaba Wahhabi

97 - 285
کے لیے اس کاخمس ہوگا۔ اس آیت میں چار خمس حاصل کرنے والے کےلیے ہیں ،لہٰذا ایک خمس جواللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اس سے شک اور احتمال کے ساتھ کچھ بھی نہ لیاجائے۔ہم کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ وسلم نے جو نفل دی وہ خمس سے تھی۔ پہلی دلیل تویہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خمس اجتہادی نظر کرنا آپ نے سپردکردیاتھا۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ آیت خیبر اور نضیر کےمتعلق آپ نے اس کی وضاحت کوغزوہ حنین تک مؤخر نہیں کرنا تھا اور جنگ ٹھنڈی ہوجانے کے بعدآپ نے یہ بات فرمائی تھی،اگر یہ پہلے کی ہوتی تو سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کو ضرور معلوم ہوتی جو آپ کے شہسوار اور کبار صحابہ میں سے تھے انہوں نے یہ مطالبہ اس وقت تک نہیں کیا جب تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم نہیں دیا کہ یہ آواز دی جائے کہ ’’ جس نے کسی کو قتل کیا تو اس کی سلب اس قاتل کو ملے گی‘‘ تو بات ان سے مخفی نہیں ہونی تھی۔ ایک اور دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو صرف ایک آدمی کی شہادت پر بغیر حلف کے وہ سلب دے دی،اگر وہ غنیمت کے اوپر ہوتی تو کوئی حق بھی غنیمت سے نہ نکالا جاتا مگر دلائل سے یا ایک گواہ اور قسم سے نکالا جاتا۔ایک اور بات ہے کہ اگر وہ قاتل کا حق ہوتا اور دلیل نہ ملتی تو توقف کر لیتے جس نقطہ کا حکم ہے اور اس کو تقسیم نہ کیا جاتااور اس کو بغیر دلیل کے تقسیم کیا گیا اور یہ ملکیت کے معانی سے خارج ہوگیا۔اس سے معلوم ہوا کہ یہ مال سلب امام کے اجتہاد کے ساتھ خمس سے نکالا گیا مال ہے جس کو کسی دوسرے طریق میں کیا جاتا ہے۔  امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ بات نہیں پہنچی کہ آپ نے حنین کے علاوہ کسی اور جنگ میں اس طرح کیا اور فرمایا ہو۔ ابن الموازکہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا براء بن مالک رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کوبھی اس کے مقتول کی سلب اور خمس نہیں دیا۔ عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں ذکر کیاہے کہ سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے مقابلہ میں سوآدمی قتل
Flag Counter