Maktaba Wahhabi

207 - 285
اصل گھر میں شریک نہیں ،تو وہ ان چیزوں میں سے کسی کے شفعہ کا مستحق نہیں ہوگا۔ اہل مدینہ کایہی قول ہے کہ وہ صرف مشترک حصہ دار کےلیے ہی شفعہ کاحق سمجھتے ہیں لیکن اہل عراق پر ساتھ والے ہمسائے کو مستحق قرار دیتے ہیں چاہے وہ اس میں شریک نہ بھی ہو۔ کتاب ابی عبید میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمسائے کےلیے شفعہ کاحق رکھا ہے۔[1] اسی لیےحدیث مکرر آئی ہے کہ آپ نے فرمایا: " الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ " ہمسایہ اپنے قرب کی وجہ سے زیادہ حق دار ہے۔ نسائی میں ہےکہ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول میری زمین میں کسی کی شراکت یاحصہ داری نہیں مگر ہمسائیگی ضرور ہے،توآپ نے فرمایا: " الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ "[2] کہ ہمسایہ اپنے قرب کی وجہ سے زیادہ مستحق ہے۔ مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر شراکت غیر تقسیم شدہ میں چاہے گھر ہو یا باغ،شفعہ کاحق رکھاہے ا ور مالک کو وہ چیز فروخت نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ وہ اپنے شریک سے اجازت نہ لے لے،پھر وہ اگر چاہے تولے لے اگر نہ چاہے توترک کردے اگر اس نے بلااجازت فروخت کردی تو وہ شریک زیادہ حق دار ہوگا۔[3] حصہ داری اور مزارعت کا حکم اسماعیل قاضی کی احکام میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وراثت میں دوجھگڑنے والے شخصوں کوفرمایا: "عدلا واسھما " برابر کرلو اور حصے بنالو۔ اسماعیل نے کہا جب شرکاء کا کوئی گھر یا زمین ہوتوان میں تقسیم اس طرح ہو کہ وہ برابر برابر حصے بناکر قرعہ اندازی کے مطابق ہر ایک اپنا حصہ لےلے اور
Flag Counter