Maktaba Wahhabi

140 - 285
ابوداؤد میں ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسلمان ہوگئی اور اس نے شادی کرلی،پھر اس کا خاوند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا،کہنے لگا اے اللہ کے رسول میں مسلمان ہوگیاتھا اورا سے میرے اسلام لانے کاعلم بھی تھا توآپ نے اس کو دوسرے خاوند سے چھین کر پہلے کودے دیا۔[1]اس کا معنی یہ ہے کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثابت ہوگئی تھی۔ معترض کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ اور نکاح متعہ کاحکم مؤطا،بخاری اور نسائی میں ہے کہ رفاعہ بن سموال نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنی عورت تمیمہ بنت وہب کوتین طلاقیں دےدیں تواس نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے نکاح کرلیا،وہ اس سے رک گئے،اس کوچھو نہ سکے تواس کو جدا کردیا،پھر اس کے پہلے خاوندرفاعہ نے جس اس کوطلاق دی تھی اس سے نکاح کرنا چاہا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیاتوآپ نے اس کو اس سے شادی کرنے سے منع کردیا اور فرمایا: "لَا تَحِلُّ لَكَ حَتَّى تَذُوقَ الْعُسَيْلَةَ "[2] تیرے لیے یہ ا س وقت تک حلال نہیں یہاں تک کہ یہ دوسرے خاوند کا ذائقہ نہ چکھ لے۔ اور مؤطا کے علاوہ دوسری کتب میں ہے "حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا وَتَذُوقَ عُسَيْلَتَهُ " یہاں تک کہ وہ خاوند اس کا مزہ اور وہ عورت اس خاوند کا مزہ چکھ لے۔ اس سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ بیوی کے پاس نیند کی حالت میں آئے جبکہ اس کو احساس نہ ہو یا اس سے جلد بازی کرے کہ ا س عورت کومزہ محسوس نہ ہو،توپہلے یہ خاوند کے لیے درست نہیں ۔صحیح ثابت حدیث میں کئی طرق سے ربیع بن میسرہ اپنے باپ سے بیان کرتے
Flag Counter