Maktaba Wahhabi

90 - 285
ان کی دلیل عبداللہ بن مبارک کی وہ روایت بھی ہے کہ انہوں نے نافع سے انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوار کے لیے دو حصے اور پیدل کے لیے ایک حصہ مقرر کیا۔[1] لیکن اس میں ان کی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے خیبر کی غنائم اس طرح تقسیم نہیں کیں اور سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے اکثر ساتھی ان کی روایت کی مخالفت کرتے ہیں ۔اور خیبر اہل حدیبیہ کے لیے تھا خاص طور پر جو چودہ سو آدمی تھے اور حدیبیہ میں سے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی بھی غائب نہیں تھا تو اس کے لیے بھی آپ نے حصہ رکھا [2] اور تمام مغازی میں آپ نے یہی طریقہ قائم رکھا کہ سوار کو دوحصے اور پیدل کو ایک حصہ دیا۔ ابن اسحٰق کہتے ہیں بنوقریظہ کے دن کل چھتیس گھوڑے تھے،المدونہ میں بھی اسی طرح ہے اور یہ پہلی فی ءتھی جس میں حصے مقرر ہوئے اور اس میں سے خمس نکالا گیا اور اس کو سنت بنا لیا گیا،اسماعیل قاضی نے بھی اسی طرح کیا ہے۔ اسماعیل کہتے ہیں میرے خیال میں بعض علماء کہتے ہیں کہ خمس کا حکم بعد میں نازل ہوا اور حدیث میں اس کے متعلق کوئی شافعی بیان نہیں ملتا اور یقیناً خمس کا امر غنائمِ حنین میں ہی ملتا ہے اور یہ آخری غنیمت تھی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے۔ واقدی کہتے ہیں کتاب المفصل میں ہے کہ غزوہ بدر کے ایک ماہ اور تین دن بعد غزوہ بنی قینقاع پہلی جنگ ہے جس میں خمس نکالا گیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا جو پندرہ رات تک جاری رہا پھر وہ آپ کے حکم پر آگئے تو آپ نے ان سے اس بات پر صلح کرلی کہ ان کے اموال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملیں گے،ان کے بچے اور بیویاں ہیں ،تو آپ نے ان کے ہتھیاروں سے تین قسی دودرعیں اور تین تلواریں لیں اور ان کے مال میں سے خمس نکالا۔
Flag Counter