Maktaba Wahhabi

249 - 285
ہوگئیں ،آپ نے صفوان سے فرمایا تمہاری کچھ درعیں گمن ہوگئی ہیں تو کیا تمہیں ان کے بدلہ کوئی تاوان دیدیں ،ا س نے کہا نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیونکہ آج میرے دل میں وہ کچھ ہے جو اس وقت نہیں تھا۔[1] ابوداؤد میں ہے کہ اس نے آپ کوجب درعیں عاریۃً دی تھیں اس وقت مسلمان نہیں تھا۔ اصیلی کےدلائل میں ہے کہ مالک نے کہا کہ کسی عاریۃً میں ضمانت ہیں مگر جوغائب اورپوشیدہ رکھاجاسکے،پھر اگر اس کی ہلاکت ظاہر ہوجائے جس میں مستعیر اس ہلاکت کاسبب نہ بنا ہوتو اس کی کوئی ضمانت نہ ہوگی۔ امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ چاہے وہ چیز غائب اور پوشیدہ رہ سکتی ہو یا نہ ہرحال میں ضمانت نہیں ۔ امام شافعی کہتے ہیں ہرحال میں عاریۃ ً کی ضمانت ہوگی۔ اگر کوئی کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوفرمایا " علی الید ردمااخذت " یعنی ہاتھ کےذمہ لی ہوئی چیز کی ادائیگی ہے۔ اگر عاریۃً کی ضمانت نہیں تو پھر اس حدیث کا کیامفہوم ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث حسن سمرہ سے بیان کرتے ہیں اورحسن عن سمرہ حجۃ نہیں ہے کیونکہ حسن خود بھی عاریۃً کی تضمین کے قائل نہیں ہیں ۔ اگر کوئی کہے صفوان کی حدیث میں ہے " ھل عاریة مؤداۃ " یعنی یہ ایسا ہوگا جوادا کیا جائے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ الفاظ ثابت بھی ہوجائیں توپھر بھی ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عاریۃً جس طرح لی گئی،اسی طرح کی ضمانت دی جائے گی۔
Flag Counter