Maktaba Wahhabi

231 - 285
پہلے اس کا قرضہ ادا کیاجائے اور تم کہہ رہے ہو کہ " مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصِي بِهَا،أَوْ دَيْنٍ"[1] بعد اس وصیت کے وصیت کی جائے اور بعد قرضہ کے۔ علماء کا آپس میں اس بارہ میں اختلاف نہیں کہ قرض وصیت سے پہلے ادا کیاجائے۔مؤطا وغیرہ میں حسن بصری اور محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک آدمی نے مرتے وقت اپنے چھ غلام آزاد کردیے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ثلث قرعہ اندازی کرکے آزاد کردیے باقی ( ورثاء کو) واپس کردیے۔[2] امام مالک کہتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ اس شخص کا ان غلاموں کے بغیر کوئی حال نہیں تھا،اور حدیث مؤطا کے علاوہ حسن اور محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ وہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اور اس روایت میں ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوئےا ور فرمایا : " لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أُصَلِّيَ عَلَيْهِ" میرا ارادہ تھا کہ میں اس کی نماز جنازہ نہ پڑھوں ،مصنف عبد الرزاق میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " لَوْ أَدْرَكْتُهُ مَا دُفِنَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ" اگر میں آجاتا تویہ مسلمانوں کے ساتھ دفن نہ کیاجاتا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرعہ اندازی کرکے دوغلام آزاد کردیے اور چار غلام کوغلام ہی رہنے دیا۔[3] ایک اورحدیث میں ہے کہ انصار کی ایک عورت نے چھ غلام آزادکردیے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم چھ تیر منگواکر ان میں قرعہ اندازی کرکے دوکوآزاد کردیا باقی ہی رہنے دیے۔[4]
Flag Counter