Maktaba Wahhabi

137 - 285
کہاجاتاہے کہ یہ عورت سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا تھی بعض نے کہا سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہاتھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کا کوئی ولی نہ ہوتو حاکم وقت اس کا ولی ہوسکتا ہے،اس سے یہ معلوم ہواکہ سامان کے عوض بھی نکاح ہوسکتا ہے۔اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہوا تھا،اس سے قرآن کی تعلیم پر اجرت لینے کا بھی جواز معلوم ہوتاہے۔ ابن حبیب کے نزدیک یہ حرمت منسوخ ہے۔جبکہ دیگر علماء کہتے ہیں کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے کیونکہ صحابہ تابعین اور فقہاء میں سے امام شافعی کے علاوہ اور کسی نے بھی اس کونہیں اپنایا،شاید کہ اس عورت کوبھی یہ سورتیں یاد ہوں لیکن وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے خاموش رہی ا ور آپ ہی کےلیے اس نے اپنی جان بخشی تھی۔اور صحابہ رضوان اللہ اجمعین میں سے پانچ دراہم سے کم کے ساتھ کسی صحابی نے بھی شادی نہیں کی۔ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے گٹھلی برابر سونے کے عوض شادی کی تھی اور یہ پانچ درہم کے قریب ہے۔[1] ابن المنذر نے اشراف میں ذکر کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کچھ سامان پر شادی کی جوتقریباً دس دراہم کے مساوی تھا۔ ابن العطار کے وثائق میں چار سودرہم ہیں النوار وغیرہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بنت ابی سفیان سے شادی کی اور اس کوچار ہزار درہم دیے اور اس میں یہ بھی ہے کہ اسے چار سو دینار سونامہر میں دیا۔
Flag Counter