آکر رکھنے کی صورت میں اس پر کوئی گناہ یا فدیہ لازم ہوتا ہے۔
سعودی دائمی مجلس برائے علمی تحقیقات و افتاء نے اپنے فتویٰ میں تحریر کیا ہے:
’’مَنْ لَزِمَہُ ہَدْيُ تَمَتُّعٍ أَوْ قِرَانٍ فَلَمْ یَجِدْہُ وَقْتَ الذِّبْحِ لِعُذْرٍ شَرْعِيٍّ، وَقَدْ فَاتَتْ عَلَیْہِ أَیَّامُ الْحَجِّ الَّتِيْ یَصُوْمُ فِیْہَا، مَنْ لَمْ یَجِدِ الْہَدْيَ، ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، فَإِنَّہُ یَصُوْمُ عَشْرَۃَ أَیَّامٍ کَامِلَۃً إِذَا رَجَعَ إِلٰی أَہْلِہِ، وَلَا یَلْزَمُہُ التَّأَخُّرُ بِمَکَۃَ حَتّٰی یَصُوْمَ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، لِأَنَّ وَقْتَہَا قَدْ فَاتَ۔‘‘[1]
’’جس شخص پر تمتع یا قِران کی قربانی لازم ہو اور شرعی عذر کے سبب ذبح کے وقت اسے قربانی میسر نہ ہو۔ علاوہ ازیں وہ قربانی نہ پانے والے کے تین روزے رکھنے کے دنوں میں روزے بھی نہ رکھ سکے، تو وہ اپنے گھر آکر پورے دس روزے رکھے گا۔ ان تین روزوں کے رکھنے کی خاطر اس پر مکہ میں ٹھہرنا لازم نہیں ہوگا، کیونکہ ان کا وقت گزر چکا ہے۔‘‘
اسی بارے میں ایک اور سوال کے جواب میں دائمی مجلس نے تحریر کیا:
’’فَعَلَیْکَ صِیَامُ عَشَرَۃِ أَیَّامٍ فِيْ مَحَلِّ إِقَامَتِکَ، وَلَا شَيْئَ عَلَیْکَ سِوَی ہٰذَا۔‘‘
’’تم پر اپنی جائے اقامت میں دس روزوں کا رکھنا ہے اور اس کے علاوہ تم پر کوئی چیز نہیں۔‘‘
ہ: پانچویں آسانی یہ ہے، کہ ان روزوں کے رکھنے میں تسلسل برقرار رکھنے کی پابندی نہیں۔ علامہ ابن قدامہ رقم طراز ہیں:
|