Maktaba Wahhabi

104 - 360
شَیْئًا ، وَلَا قَصَدَ بِقَلْبِہِ تَمَتُّعًا ، وَلَا إِفْرَادًا ، وَلَا قِرَانًا صَحَّ حَجُّہُ أَیْضًا۔‘‘ [1] ’’اگر اس نے مطلق احرام باندھا، تو یہ جائز ہو گا۔ اگر اس نے تفصیل سے لا علمی میں اجمالی طور پر حج کا قصد کرتے ہوئے احرام باندھا، تو (یہ بھی) جائز ہو گا۔ اگر اس نے لوگوں کی مانند حج و عمرہ کا قصد کرتے ہوئے تلبیہ پکارا۔ تمتع، افراد اور قران میں سے کسی ایک کا نہ تو نام لیا اور نہ دل سے اس کی نیت کی ، تو پھر بھی اس کا حج صحیح ہو گا۔‘‘ ۳: حافظ ابن حجر تحریر کرتے ہیں: ’’ وَأَمَّا مُطْلَقُ الْإِحْرَامِ عَلَی الْإِبْہَامِ فَہُوَ جَائِزٌ ، ثُمَّ یَصْرِفُہُ الْمُحْرِمُ لِمَا شَائَ ، لِکَوْنِہٖ صلي اللّٰه عليه وسلم لَمْ یَنْہَ عَنْ ذٰلِکَ ، وَہُوَ قَوْلُ الْجَمْہُوْرِ۔‘‘ [2] ’’تعین کے بغیر مطلَق احرام جائز ہے ، پھر جیسے چاہے ، متعین کر لے ، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں کیا اور جمہور کا یہی قول ہے۔‘‘ ان اقوال کے متعلق تین باتیں: ۱: جمہور کے نزدیک مطلق احرام باندھنا درست ہے۔ ب: اس کی صحت کی دلیل یہ ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معلّق احرام کو درست قرار دیا اور مطلق احرام اسی جیسا ہے۔ ج: مطلق احرام والے کو بعد میں اپنے لیے عمرے یا حج کی کسی قسم کو متعین کرنے کا اختیار ہے۔
Flag Counter