Maktaba Wahhabi

93 - 150
جبرئیل علیہ السلام نے انہی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دَور کئے۔ اس میں قرآن کااعجاز اورپختگی پائی جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (( فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ))کا مطلب ہر گزیہ نہیں کہ ہر صحابی اپنی مرضی سے قرآن کریم میں بعض لغات کی تبدیلی کرتا تھا۔اگر ایسا ہوتا تو قرآن کریم کااعجاز ختم ہوجاتااورقرآن اکھاڑہ بن کے رہ جاتاکہ جس کا جی چاہتا اس میں تبدیلی کرتا، حتیٰ کہ اس کامنزل من اللہ ہونا ختم ہوجاتا۔حروفِ سبعہ کی اجازت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُمت پر آسانی کرتے ہوئے دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُبی رضی اللہ عنہ اورابن مسعود رضی اللہ عنہ کو جو پڑھایا تھا، وہ بھی جبرئیل علیہ السلام سے دَور کیاتھا۔اسی طرح ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی سورۃ الفرقان کی تلاوت بھی اسی قبیل سے تھی۔اگرایسانہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: (( ھٰکَذَاأَقْرَأَنِیْھَا جِبْرائِیْلُ۔)) کی صحت کیسے ممکن ہے۔اس کا ماسوائے اس کے اورکوئی جواب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبرئیل علیہ السلام نے ایک مرتبہ ایسے اور دوسری مرتبہ دوسری طرح پڑھایا۔ اگریہ کہاجائے کہ لوگوں میں سے ہر ایک کو یہ حق حاصل تھا کہ جو چاہے اختیارکرلے تو اللہ کے فرمان:﴿اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّالَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (الحجر:۹)کاابطال لازم آتا ہے۔‘‘ ۳۔ مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اختلاف ِقراء ات کو قرآن مجید میں لڑائی،جھگڑا اوراسے جھٹلانے، اس میں شک پیداکرنے یااس میں شوروغوغا کرنے کاباعث بنائیں۔ یہ اس لیے جائز نہیں ہے،کیونکہ سبعہ حروف پر نزولِ قرآن کامقصد اُمت پر آسانی،رحمت اورنرمی کرنا تھا، تویہ مناسب نہیں کہ ہم اس آسانی کو تنگی، وسعت کو سختی اورعطیہ خداوندی کو آزمائش اورمشقت بناڈالیں۔ اس کے دلائل میں سے اوپر ذکر کردہ حدیث ِعمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد مبارک یوں آیاہے:
Flag Counter