Maktaba Wahhabi

110 - 150
ہے۔اس طرح اس قراء ت کی نسبت محض اس لیے کی جاتی ہے کہ اس قاری یا راوی نے اس میں پختگی اورمہارت حاصل کی، اس کے پڑھنے پڑھانے میں اپنی عمر کھپا دی،ان کانقل وضبط بھی ہم پرواضح ہے، چنانچہ وہ مختار قراء ت انہی کے نام سے مشہور ہوگئی۔اور چونکہ ان وجوہات کی بنا پر تعلیم وتعلّم کے لیے انہی کی طرف لوگ رجوع کرتے تھے، چنانچہ بعد ازاں یہ روایت انہی کے طریق سے نقل کی گئی، لہٰذا اس کی نسبت ان کی طرف ہونے لگی۔ اَحرف سبعہ کی ان روایات (اصطلاح قراء میں جنہیں قراء ات کہا جاتا ہے) کو امام نافع رحمہ اللہ کی قراء ت اور امام حمزہ رحمہ اللہ وغیرہ کی قراء ت کہا جانے لگا۔ یہ نسبت صرف اختیاری اوران کے اس قراء ت کے ساتھ تعلق کی بناپر ہے، نہ کہ یہ نسبت وضعی وایجادی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئمہ عشرہ میں سے کوئی بھی امام اپنے شاگردوں کو دوسرے اِمام کی اختیار کردہ خاص قراء ت اخذ کرنے یا پڑھنے سے منع کرتاتھا اورنہ ہی ان قراء ات کا انکارکرتا تھا،،بلکہ وہ لوگ ان قراء ات کے صحیح اور متواتر ہونے کے قائل تھے، بلکہ ان کے پڑھنے پڑھانے کی اجازت دیتے تھے اوربسااَوقات بذات خود اُس قراء ت کو بطور عبادت تلاوت بھی کیا کرتے تھے۔ ایسے آئمہ میں سے سیدنا ابوحفص بن عمر دوری رحمہ اللہ ہیں،جو امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ اور امام علی الکسائی رحمہ اللہ کے راوی ہیں۔ سیدنا دوری رحمہ اللہ تمام قراء ات صحیحہ متواترہ کاعلم رکھتے تھے اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے ہی علم قراء ات پر مستقل کتاب لکھی۔ اس سب کے باوجود عملاً ان سے صرف دو روایات (ایک سیدنا ابوعمرو رحمہ اللہ سے اور دوسری سیدنا الکسائی رحمہ اللہ سے) مشہور ہوئیں۔جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ان قراء ات کو دوسری قراء ات پرترجیح دی اورانہی کی تعلیم تک خود کو محدود رکھا، چنانچہ یہ روایات ان سے مشہور ہوئیں اوران کی طرف منسوب کی جانے لگیں۔ ائمہ عشرہ کے اختیارات یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آئمہ عشرہ کی قراء ات تو محض ان کے اختیارات ہیں،جس کامطلب ہے کہ ان ائمہ میں سے ہرایک نے جو کچھ نقل کیا،پھر اس کے متعلق تمام قرآنی
Flag Counter