Maktaba Wahhabi

77 - 150
حدیث مبارکہ میں مجاز مرسل سے کام لیاگیاہے۔وہ اس طرح کہ جزء (حرف) بول کر کل (مختلف حروف پر مشتمل قرآنی کلمات) مراد لیا گیاہے۔ ان میں تعلق جزئیت اور کلیت کا ہے،جیسے رقبۃ (گردن) کا اطلاق غلام پر اور عین (آنکھ) کا اطلاق شخص (جاسوس) پر کیا جاتاہے۔ واضح ہو کہ مختلف قراء ات پرمشتمل کلمہ قرآنی کو حرف اس لیے کہا گیا ہے کہ کلمہ میں ایسے حروف ہوتے ہیں جن کی قراء ت میں قراء کا اختلاف واقع ہوتا ہے۔ ایک قاری نے ایک کلمہ کو رفع دیا، تودوسرے نے نصب۔ایک نے یائے غیب سے پڑھا تو دوسرے نے تائے خطاب سے یا ایک نے کسی حرف کی زیادتی کی، تو دوسرے نے کمی کرکے پڑھا وغیرہ وغیرہ۔ تمام قراء ات کا باہمی اختلاف اسی قبیل سے ہوتا ہے۔ لوگوں کے استعمالات میں بھی حرف بول کر مراد قراء ت کو لیا جاتا ہے،چنانچہ لوگ جب حرفِ نافع رحمہ اللہ یاحرف ِحمزہ رحمہ اللہ کہتے ہیں تو ان کی حرف سے مراد قراء ت ہوتی ہے۔ مذکورہ بیان کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ تمام کلمات ِقرآنیہ میں سات سات قراء ات پائی جاتی ہیں، بلکہ سات لغات تو گنتی کے چند کلمات میں پائی جاتی ہیں، جیسے جبرئیل،ھیت اور أرجِہٖ وغیرہ۔ان کلمات میں بھی سات لغات تب جمع ہوتی ہیں جب تمام صحیح اورشاذ قراء ات کو سامنے رکھاجائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں ایک بھی کلمہ ایسا نہیں ہے جس میں مکمل سات قراء ات پائی جائیں۔ قرآن کریم میں صرف ایک کلمہ ایسا ہے جس میں چھ لغات پائی جاتی ہیں اور وہ ہے : أرجہ (الأعراف:۱۱۱، الشعراء: ۳۶) واضح رہے کہ اَحرف سبعہ سے مراد قراء ات ِسبعہ یعنی سات معروف قراء کی قراء ات بھی نہیں ہیں، جیسا کہ ہم اس بات کو ’’آئمہ سبعہ کی قراء ات اور حروف ِسبعہ کی ان کی طرف نسبت‘‘ کے زیر عنوان مبحث میں آگے واضح کریں گے۔ معلوم ہوا اَحرف سبعہ سے مراد کلمات قرآنیہ ہیں، جو کبھی ایک، دو یا تین اور کبھی سات قراء ات کے مطابق پڑھے جاتے ہیں۔ تیسرا قول:… سبعہ اَحرف بمعنی اَوجۂ قراء ات اَحرف سبعہ سے اَوجہ سبعہ بھی مراد لی گئی ہیں جو کہ مذکورہ قول کے قریب قریب ہے،
Flag Counter