Maktaba Wahhabi

106 - 150
آئمہ عشرہ میں سے کوئی ایک یا ان کے راویوں میں کوئی ایک نقل کرنے میں منفرد ہوا ہے، بشرطیکہ وہ شرائط پرپوری اتری ہو،اسے دین کا لازمی طور پر حصہ سمجھا جائے گاکیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل کی گئی ہیں۔ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار صرف جاہل آدمی ہی کرسکتا ہے۔ان کا متواترہونا صرف راوی کی حد تک نہیں،بلکہ ان کا تواتر تو ہر اس شخص کے ہاں ثابت ہے،جو أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰه وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم کی گواہی دیتاہے، چاہے وہ شخص کس قدر سادہ لوح ہی کیوں نہ ہواوراس نے قرآن کریم کا ایک حرف بھی نہ یاد کیا ہو۔ ہر مسلمان پریہ فرض ہے کہ جس بات کو میں نے نقل کیاہے، اللہ پر توکل کرتے ہوئے اسے دل میں بٹھالے کہ قراء ات قطعی طور پر ثابت ہیں۔ انہیں شک و شبہ کی بنا پر رد نہیں کیا جاسکتا۔ ‘‘[1] امام ابن جزری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: ’’ہروہ قراء ت جو مطلق طور پر عربیت کے مطابق ہو، رسم ِعثمانی کے موافق ہو (چاہے یہ موافقت تقدیری واحتمالی ہی ہو) اور بطریق تواتر ثابت ہو تو یہ قراء ت قطعی طور پر متواترہ ہوگی۔‘‘[2] بعض اُمور کی وضاحت امام جزری رحمہ اللہ کے قول:’’مطلق طور پر عربیت کے مطابق ہو‘‘کا مطلب ہے :چاہے استعمالات اہل عرب میں سے کسی بھی وجہ کے مطابق ہو، جیسے سیدنا حمزہ رحمہ اللہ کی قراء ت الأَرْحَامِ (میم کے جر کے ساتھ) اور سیدنا ابوجعفر رحمہ اللہ کی قراء ت لِیَجْزِیَ قَوْمًا ہے۔ امام جزری رحمہ اللہ کے قول: ’’مصحف کے مطابق ہو‘‘کا مطلب ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مختلف شہروں میں روانہ کردہ مصاحف میں سے کسی ایک مصحف کے مطابق ہو، مثلاً سیدنا مکی رحمہ اللہ ﴿تَجْرِیْ تَحْتہَا الْاَنْہٰرُ﴾ (التوبۃ:۱۰۰)میں مِن کو زیادہ کرتے ہیں اور
Flag Counter