Maktaba Wahhabi

94 - 150
(( فَلاَ تَمَارُوْا فِی الْقُرْآنِ فَإِنَّ الْمرَائَ فِیْہِ کُفْرٌ۔)) ’’قرآن کریم میں جھگڑا مت کرو، کیونکہ قرآن کریم میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔‘‘ اسی طرح اختلافِ قراء ات کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا متغیر چہرے کے ساتھ فرمانا: ((إِنَّمَا أَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ الاخْتِلاَف۔))یعنی تم سے پہلوں کو بھی اختلاف نے ہلاک کیا۔ مزید برآں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے سینے پر مارنا وغیرہ بھی اس قبیل کے دلائل میں سے ہے۔ ۴۔ اَحرف ِسبعہ کی رخصت مدینہ میں نازل ہوئی، نہ کہ مکہ میں۔ اس کی دلیل صحیح مسلم کی اوپر ذکر کردہ حدیث ہے،جس میں ہے کہ سیدنا جبرئیل کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات بنی غفار کے حوض کے پاس ہوئی اوریہ جگہ مدینہ منورہ میں تھی۔اس طرح وہ اَحادیث جو قراء ا ت کے بارے میں مشاجراتِ صحابہ پر دلالت کرتی ہیں، ان سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ یہ معاملہ مسجد میں پیش آیا تھااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد مدینہ میں آکر بنائی تھیں۔ قراء ات کے مدینہ منورہ میں نازل ہونے کی حکمت یہ سمجھ آتی ہے کہ مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کی تعداد انتہائی قلیل تھی اوران میں بھی اکثریت قریشیوں کی تھی۔چونکہ وہ بکثرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے،اس لیے ان پر قرآن مجید کی صحیح قراء ت اور غلطی وتحریف سے محفوظ تلاوت،نیز قرآن کریم کاحفظ آسان تھا۔اب مدینہ میں چونکہ مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی، دعوت کادائرہ کار وسیع ہوگیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرۂ عرب کے اندر اورباہر مختلف اقوام و قبائل کی طرف خطوط ارسال کرنے کا سلسلہ شروع فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مختلف وفود آنے لگے اوردین ِاسلام میں ایسے لوگ فوج در فوج داخل ہوناشروع ہوگئے جو مختلف لہجات اورلغات والے تھے۔ اگر انہیں ایک ہی لغت میں قرآن کریم پڑھنے کا پابند کردیاجاتا، تو ان پر بہت گراں گزرتا۔ چنانچہ ہرقبیلہ کو اس کی لغت کے مطابق اور لہجہ کے موافق پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ اب ہرقبیلہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھنے کے بعد جو قراء ت اس کی لغت کے مطابق اورلہجہ کے موافق ہوتی اس میں پڑھنا شروع کردیا۔
Flag Counter