Maktaba Wahhabi

137 - 150
امام مکی بن ابی طالب القیسی رحمہ اللہ (ت ۱۸۹ھ) فرماتے ہیں : ’’امام کسائی نے امام حمزہ رحمہ اللہ سے قراء ات قرآنیہ پڑھی ہیں۔ لیکن تین سو کے لگ بھگ حروف میں ان کی مخالفت کی ہے۔ کیونکہ وہ خود صاحب اختیار امام ہیں۔ انھوں نے امام حمزہ رحمہ اللہ کی قراء ۃ میں سے بعض حروف کو لے لیا ہے اور بعض کو ترک کردیا ہے۔‘‘[1] اسی طرح امام ابو عمرو بصری رحمہ اللہ نے امام ابن کثیر مکیl سے پڑھا ہے۔ لیکن متعدد حروف میں ان کی مخالفت کی ہے۔ کیونکہ انھوں نے امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر اساتذہ کرام سے بھی پڑھا تھا۔ چنانچہ آپ نے کچھ حرو ف امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی قراء ت سے اختیار کر لیے اور کچھ حروف دیگر اساتذہ کرام کی قراء ات سے اختیار کرلیے۔ علماء قراء ات میں سے کثیر تعداد ایسے ائمہ کرام کی ہے جو اپنا اپنا اختیار رکھتے تھے۔ چنانچہ امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ (ت۲۲۴ھ) کا بھی ایک اختیار ہے اسی طرح امام ابو حاتم السجستانی رحمہ اللہ (ت ۲۵۵ھ) بھی صاحب اختیار ائمہ میں سے ہیں۔ قراء کرام کے اختیارات کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انھیں احاطہ ٔ شمار میں نہیں لایا جا سکتا ہے۔ اکثر قراء کرام کے دو یا دو سے زیادہ اختیارات تھے۔[2] کلام مذکورہ سے ان اصطلاحات کی بخوبی وضاحت ہو جاتی ہے کہ قراء ۃ ، روایۃ، طریق اور وجہ دراصل اوپر سے نیچے آنے والے رواۃِ قراء ات کی طرف سند اور نسبت کرنے کی اصطلاحات کا فرق ہے۔ اور اختیار ان تمام طبقات پر مشتمل ہے۔ خواہ وہ قاری کا ہو ، راوی کا ہو یا راوی کے راوی کا ہو۔ امثلہ اب ان تمام اصطلاحات کی مثالیں سمجھ لیں:
Flag Counter